سورة فاطر - آیت 28

وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں بے شک اللہ زبردست درگزر کرنے والا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ١ علم سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات، افعال و احکام اور قدرتوں کا علم ہے نہ کہ صرف و نحو، فلسفہ تاریخ جغرافیہ اور سائنس وغیرہ رسی علوم اور حقیقت ہے کہ جس کسی شخص کو معرفت باللہ زیادہ حاصل ہوگی، اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہوگا یعنی تقویٰ بقدر علم ہوتا ہے۔ انبیاء ( علیہ السلام) کو چونکہ حسب مراتب معرفت باللہ دوسرے لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (انا اخشاکم للہ واتقاکم لہ) میں تم سب کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ عالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا وہ عالم نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ڈر بڑا علم ہے اور اس سے بے خوفی بڑا جہالت ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں :” علم کثرت حدیث کا نام نہیں ہے بلکہ کثرت خشیت کا نام ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا ارشاد ہے : ” رحمان کا علم رکھنے والا وہ ہے جو شرک نہ کرے، اللہ کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھے، اس کی ہدایت پر کار بند رہے اور اسے یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر تمام اعمال کا حساب ہوگا۔ امام مالک (رح) فرماتے ہیں : ” علم کثرت روایت کا نام نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو ایک نور ہے جو اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ ( روح، ابن کثیر)