سورة یوسف - آیت 70

فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جب اس نے ان کا سامان تیار کروا دیا تو پینے کا برتن اپنے بھائی کے کجاوے میں رکھ دیا پھر ایک اعلان کرنے والے نے اعلان کیا اے قافلے والو! بے شک تم چور ہو۔“ (٧٠) ”

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4۔ جو اکثر مفسرین (رح) کے قول کے مطابق چاندی کا تھا۔ بعض کہتی ہیں کہ سونے کا تھا جس پر جواہر لگے تھے لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ کوئی قیمتی پیالہ تھا۔ (کبیر)۔ ف 5۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے کٹورا رکھوانے کا یہ فعل اپنے بھائی کی رضا مندی سے اور اس کے علم میں لا کر کیا ہوگا جیسا کہ اوپر والی آیت سے اندازہ ہوتا ہے واللہ اعلم۔ ف 6۔ وہ اس لحاط سے واقعی چور تھے کہ انہوں نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو باپ سے چرا کر کنویں میں پھینک دیا تھا۔ یا یہ پکارنا حضرت یوسف ع کے اشارے اور حکم سے تھا ہی نہیں بلکہ جب لوگوں نے وہ کٹورا نہ پایا تو اسی قافلہ والوں پر چوری کا الزام لگایا جو اس وقت وہاں موجود تھا۔ یہی انسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ آیت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے پیالہ رکھنے کا تذکرہ اپنے غلاموں یا نوکروں سے کردیا تھا۔ (وحیدی)۔