سورة البقرة - آیت 143

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ جس قبلہ پرتم پہلے تھے اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا تاکہ ہم جان لیں کہ رسول کا پیرو کار کون ہے اور کون اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاتا ہے؟ گویہ کام بڑا مشکل تھا مگر جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے ان کے لیے مشکل ثابت نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 صراط مستقیم۔ اصل میں تو جملہ افکار واخلاق اور اعمال میں راہ اعتدال کا نام ہے یہاں اس امر کی طرف اشارہ کہ کعبہ کو قبا قرار دینا بھی صراط مستقیم کی طرف ہدایت میں داخل ہے یہود اور منافقین کے اعتراضات محض حسد کی بنا پر ہیں حدیث میں ہے کہ تین باتوں پر یہود مسلمانوں سے حسد کرتے ہیں کے کعبہ قبلہ ہونے پر۔ جمعہ کے دن پر اور امام کے پیچھے آمین کہنے پر۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 4 الوسط کے معنی بہتر اور افضل کے ہیں اور ابو سعید الخدری (رض) سے مرفو عا ثابت ہے کہ یہاں وسط بمعنی ہے جس کے معنی ثقہ اور قابل اعتماد بھی ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اعتقاد واخلاص اور اعمال میں معتدل اور امم سابقہ کی افراط و تفریط سے پاک اور (قرطبی۔ ابن کثیر) کذالک اس تشبیہ کے ایک معنی تو یہ ہیں یہ جس طرح ہم نے تم پر ہدایت کی نعمت پوری کی ہے جس میں قبلہ کی طرف استقبال کا حکم بھی داخل ہے اسی طرح ہم نے تمہیں امت واسط بنا کر تم پر اپنی نعمت کا اتمام کردیا ہے اور دوسرے معن یہ ہیں کہ جس طرح ہم نے کعبہ کو قبلہ قرار دیا ہے جو سب قبیلوں سے افضل اور انبیاء کے امام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ ہے اس طرح ہم نے تمہیں سب امتوں سے افضل امت قرار دیا ہے۔ ( کبیر۔ ابن کثیر) ف 5 یعنی تمہیں امت وسط قرار دینے سے غرض یہ ہے کہ تم کو دنیا اور آخرت میں لوگوں پر شاہد ہونے کا درجہ حاصل ہوجائے تم قیامت کے دن انبیاء کے حق میں گواہی دو کہ انہوں نے اپنی امتوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ گواہی دی کہ تم نے اس کے مطابق عمل کر کے دکھا یا حضرت جابر عبد اللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اور میری امت قیامت کے دن ایک بلند ٹیلے پر بیٹھے ہوں گے جب کبھی کوئی امت اپنے نبی کی تکذیب کرے کی تو ہم گواہی دیں گے کہ بے شک اس نبی نے اپنی امت کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچادیئے تھے۔ امت کی یہ شہادت پر مات محمد یہ سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں ان وقعات کا کیسے علم ہو اتو کہیں گے۔ جا ونا نبینافا خبرنا ان الرسل قد بلغوا۔ کہ ہمیں ہمارے پیغمبر نے خبر دی تھی کہ تمام انبیاء نے اپنی امتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچا دیئے۔ (ابن کثیر بحوالہ بخاری وغیرہ) امت محمدی کی دنیا میں شہادت کے متعلق بھی احادیث وارد ہیں۔ ایک حدیث میں ہے اچھے اور برے لوگوں کی تمیز اور مغفرت تمہاری شہادت پر ہوگئی جس کی تم نے مذت کردی وہ برا ہے۔ ایک مرتبہ دو جنازوں کے بارے میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنتی اور دوزخی ہونے کا حکم صحابہ کی شہادت پر ہی فرمایا تھا اور ساتھ ہی اس کی وجہ بیان فرمائی کہ انتم شھد اء اللہ فی الا رض کہ تم زمین میں اللہ کی طرف سے گواہ ہو۔ (ابن کثیر) ف 6 یعنی پہلے بیت المقدس جو عارضی طور پر قبلہ قرار دیا تھا اور اب کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا ہے۔ یہ اس لیے لوگوں کے ایمان کی آزمائش ہوجائے اور تمہارے سامنے یہ واضح ہوجائے گا کہ کون متبع ہے او کون مرتد یہی وجہ ہے کہ بعض نے السابقول الا ولون۔ انہی انصار اور مہاجرین کو قرار دیا ہے جنہوں نے قبلین کی طرف نماز پڑھی ہے۔ (ابن کثیر )