سورة التوبہ - آیت 122

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ٹھیک نہیں کہ ایمان دار سب کے سب جہاد کے لیے نکل جائیں، ان میں سے کچھ لوگ کیوں نہ نکلے، تاکہ وہ دین میں سمجھ حاصل کریں اور تاکہ جب اپنی قوم کی طرف لوٹیں تو انھیں ڈرائیں، اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچ جائیں۔“ (١٢٢)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٥۔ یعنی ان کاموں سے بچے رہیں جن سے اس کے بعد منع کیا گیا۔ مفسرین کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ جب ان لوگوں کو سخت لعنت ملامت کی گئی جو جہاد کے لئے نکلنے کی بجائے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے تھے تو مسلمانوں نے خیال کیا کہ اب کسی کیلئے جہاد کے موقع پر مدینہ میں ٹھہرے رہنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ جب بھی کفار سے جہاد کے لئے فوج بھیجنے کا ارادہ کرتے سب کے سب مسلمان جہاد پر جانے کیلئے تیار ہوجاتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مطلب یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کے لئے جہاد کو نکلنا اس وقت فرض ہے جب آنحضرت ﷺ خود روانہ ہورہے ہوں ورنہ تو انہی لوگوں پر جہاد کے لئے ضروری ہے جن کو حکم دیا جائے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت کا تعلق علم دین کے حاصل کرنے سے ہے یعنی اگرچہ تمام مسلمانوں کے لئے دین کا علم حاصل کرنے کے لئے نکلنا ضروری نہیں تھا مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر قبیلے میں سیکچھ لوگ نکلتے علم حاصل کرتے اور واپس آکر اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی دین کے احکام سے خبردار کرتے تاکہ وہ بری باتوں سے پرہیز کرتے۔ آیت کے الفاظ میں ان ہر دو مفہوم کا یکساں احتمال ہے اور اس کی رو سے جہاد اور طلب علم دونوں کے لئے نکلنا مسلمانوں کے لئے فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی اس کی ذمہ داری بحیثیت مجموعی سب پر عائد ہوتی ہے اور ان میں سے بعض افراد کا اسے سرانجام دینا ضروری ہے ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔ (کبیر۔ ابن کثیر)۔