سورة التوبہ - آیت 114

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش طلب کرنا صرف اس وعدہ کی وجہ سے تھا جو وہ اپنے باپ سے کرچکے تھے پھر جب اس کے لیے واضح ہوگیا کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگئے۔ بے شک ابراہیم بہت آہ زاری کرنے والے اور حوصلہ مند تھے۔“ (١١٤)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٦ حضرت ابراہیم نے اپنے مشرک باپ سے یہ وعدہ اس وقت کیا تھا جب وہ اس سے جدا ہو کر بغرض ہجرت اپنے وطن سے نکلے تھے (دیکھیے سورۃ مریم آیت 47) چنانچہ حسب وعدہ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت کی بھی۔ (دیکھیے شعرا آیت 42) مگر یہ اس وقت تک کی کیفیت کا ذکر ہے جب تک انہیں امید تھی کہ ان کا باپ شرک سے توبہ کر کے مسلمان ہوجائیگا آخر مایوس ہونے کے بعد برأت کا اعلان فرما دیا۔ (کبیر) اگر کوئی کافر فرشتے دار فوت ہوجائے تو مسلمان اس کی تجہیز و تکفین میں شریک تو ہوسکتا ہے مگر اس کے لئے دعائے مغفرت نہیں کرسکتا۔ (از ابن کثیر) ف ٧ یا خدا کے حضور بہت آہیں بھرنے والے اور حلیم تھے کہ اگر کوئی سختی سے پیش آتا تو آپ نرمی سے جواب دیتے۔ (از ابن کثیر)