جامع الترمذي - حدیث 87

أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنْ الْقَيْئِ وَالرُّعَافِ​ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ وَهُوَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ وَإِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ حَدَّثَنَا وَقَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ الْمَخْزُومِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاءَ فَأَفْطَرَ فَتَوَضَّأَ فَلَقِيتُ ثَوْبَانَ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ صَدَقَ أَنَا صَبَبْتُ لَهُ وَضُوءَهُ قَالَ أَبُو عِيسَى و قَالَ إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى وَابْنُ أَبِي طَلْحَةَ أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَى وَقَدْ رَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ مِنْ التَّابِعِينَ الْوُضُوءَ مِنْ الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ فِي الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ وُضُوءٌ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَقَدْ جَوَّدَ حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ هَذَا الْحَدِيثَ وَحَدِيثُ حُسَيْنٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَرَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ فَأَخْطَأَ فِيهِ فَقَالَ عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْأَوْزَاعِيَّ وَقَالَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ وَإِنَّمَا هُوَ مَعْدَانُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 87

کتاب: طہارت کے احکام ومسائل قئی اورنکسیرسے وضوکا بیان​ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے قئی کی تو صوم توڑدیااوروضوکیا (معدان کہتے ہیں کہ ) پھر میں نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے دمشق کی مسجد میں ملاقات کی اور میں نے ان سے اس بات کاذکرکیا توانہوں نے کہاکہ ابوالدرداء نے سچ کہا، میں نے ہی آپ ﷺ پرپانی ڈالا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- صحابہ اورتابعین میں سے بہت سے اہل علم کی رائے ہے کہ قئی اورنکسیر سے وضو (ٹوٹ جاتا)ہے۔ اوریہی سفیان ثوری، ابن مبارک ، احمد ،اور اسحاق بن راہویہ کاقول ہے ۱؎ اوربعض اہل علم نے کہاہے کہ قئی اورنکسیرسے وضونہیں ٹوٹتا یہ مالک اورشافعی کا قول ہے ۲؎ ، ۲- حدیث کے طرق کوذکرکرنے کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حسین المعلم کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے۔
تشریح : ۱؎ : ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے، لیکن اس حدیث سے استدلال دوباتوں پرموقوف ہے: ایک یہ کہ : حدیث میں لفظ یوں ہو ' قاء فتوضأ ' (قیٔ کی تو وضو کیا) جب کہ یہ لفظ محفوظ نہیں ہے، زیادہ تر مصادر حدیث میں زیادہ رواۃ کی روایتوں میں 'قاء فأفطر' (قیٔ کی تو روزہ توڑ لیا) ہے ' فأفطر' کے بعد بھی 'فتوضأ' کا لفظ نہیں ہے، یااسی طرح ہے جس طرح اس روایت میں ہے ، یعنی ' قاء فأفطرفتوضأ' (یعنی قیٔ کی تو روزہ توڑ لیا، اور اس کے بعد وضو کیا ) اور اس لفظ سے وضو کا وجوب ثابت نہیں ہوتا،کیوں کہ ایسا ہوتا ہے کہ قیٔ کے بعد آدمی کمزور ہوجاتا ہے اس لیے روزہ توڑ لیتا ہے، اور نظافت کے طورپر وضو کرلیتا ہے، اور رسو ل اللہﷺ تو اور زیادہ نظافت پسند تھے، نیز یہ آپ ﷺ کا صرف فعل تھا جس کے ساتھ آپ کا کوئی حکم بھی نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر 'قاء فتوضأ ' کا لفظ ہی محفوظ ہوتو ' فتوضأ' کی فاء سبب کے لیے ہو ، یعنی یہ ہوا کہ ' قیٔ کی اس لیے وضو کیا' اور یہ بات متعین نہیں ہے ، بلکہ یہ فاء تعقیب کے لیے بھی ہوسکتی ہے، یعنی یہ ہوا کہ ' قیٔ کی اور اس کے بعد وضو کیا'۔ ۲؎ : ان لوگوں کی دلیل جابر رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جسے امام بخاری نے تعلیقاً ذکرکیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ ذات الرقاع میں تھے کہ ایک شخص کو ایک تیر آکرلگااور خون بہنے لگا لیکن اس نے اپنی صلاۃ جاری رکھی اور اسی حال میں رکوع اورسجدہ کرتا رہا ظاہر ہے اس کی اس صلاۃکا علم نبی اکرم ﷺکو یقینا رہاہوگا کیو نکہ اس کی یہ صلاۃ بحالت پہردہ داری تھی جس کا حکم نبی اکرم ﷺ نے اسے دیا تھا، اس کے باوجودآپ نے اسے وضوکرنے اورصلاۃکے لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ ۱؎ : ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے، لیکن اس حدیث سے استدلال دوباتوں پرموقوف ہے: ایک یہ کہ : حدیث میں لفظ یوں ہو ' قاء فتوضأ ' (قیٔ کی تو وضو کیا) جب کہ یہ لفظ محفوظ نہیں ہے، زیادہ تر مصادر حدیث میں زیادہ رواۃ کی روایتوں میں 'قاء فأفطر' (قیٔ کی تو روزہ توڑ لیا) ہے ' فأفطر' کے بعد بھی 'فتوضأ' کا لفظ نہیں ہے، یااسی طرح ہے جس طرح اس روایت میں ہے ، یعنی ' قاء فأفطرفتوضأ' (یعنی قیٔ کی تو روزہ توڑ لیا، اور اس کے بعد وضو کیا ) اور اس لفظ سے وضو کا وجوب ثابت نہیں ہوتا،کیوں کہ ایسا ہوتا ہے کہ قیٔ کے بعد آدمی کمزور ہوجاتا ہے اس لیے روزہ توڑ لیتا ہے، اور نظافت کے طورپر وضو کرلیتا ہے، اور رسو ل اللہﷺ تو اور زیادہ نظافت پسند تھے، نیز یہ آپ ﷺ کا صرف فعل تھا جس کے ساتھ آپ کا کوئی حکم بھی نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر 'قاء فتوضأ ' کا لفظ ہی محفوظ ہوتو ' فتوضأ' کی فاء سبب کے لیے ہو ، یعنی یہ ہوا کہ ' قیٔ کی اس لیے وضو کیا' اور یہ بات متعین نہیں ہے ، بلکہ یہ فاء تعقیب کے لیے بھی ہوسکتی ہے، یعنی یہ ہوا کہ ' قیٔ کی اور اس کے بعد وضو کیا'۔ ۲؎ : ان لوگوں کی دلیل جابر رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جسے امام بخاری نے تعلیقاً ذکرکیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ ذات الرقاع میں تھے کہ ایک شخص کو ایک تیر آکرلگااور خون بہنے لگا لیکن اس نے اپنی صلاۃ جاری رکھی اور اسی حال میں رکوع اورسجدہ کرتا رہا ظاہر ہے اس کی اس صلاۃکا علم نبی اکرم ﷺکو یقینا رہاہوگا کیو نکہ اس کی یہ صلاۃ بحالت پہردہ داری تھی جس کا حکم نبی اکرم ﷺ نے اسے دیا تھا، اس کے باوجودآپ نے اسے وضوکرنے اورصلاۃکے لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔