جامع الترمذي - حدیث 17

أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الاسْتِنْجَاءِ بِالْحَجَرَيْنِ​ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَقُتَيْبَةُ، قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ لِحَاجَتِهِ، فَقَالَ: "الْتَمِسْ لِي ثَلاَثَةَ أَحْجَارٍ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ بِحَجَرَيْنِ وَرَوْثَةٍ، فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ، وَقَالَ إِنَّهَا رِكْسٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، نَحْوَ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ. وَرَوَى مَعْمَرٌ وَعَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ. وَرَوَى زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ. وَرَوَى زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ. وَهَذَا حَدِيثٌ فِيهِ اضْطِرَابٌ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ تَذْكُرُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ شَيْئًا؟ قَالَ: لاَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ:أَيُّ الرِّوَايَاتِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ أَصَحُّ؟ فَلَمْ يَقْضِ فِيهِ بِشَيْئٍ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا؟ فَلَمْ يَقْضِ فِيهِ بِشَيْئٍ. وَكَأَنَّهُ رَأَى حَدِيثَ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ: أَشْبَهَ، وَوَضَعَهُ فِي كِتَابِ الْجَامِعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا عِنْدِي حَدِيثُ إِسْرَائِيلَ وَقَيْسٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، لإِنَّ إِسْرَائِيلَ أَثْبَتُ وَأَحْفَظُ لِحَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ مِنْ هَؤُلاْءِ، وَتَابَعَهُ عَلَى ذَلِكَ قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت أَبَا مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ يَقُولُ: مَا فَاتَنِي الَّذِي فَاتَنِي مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ إِلاَّلِمَا اتَّكَلْتُ بِهِ عَلَى إِسْرَائِيلَ، لأَنَّهُ كَانَ يَأْتِي بِهِ أَتَمَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَزُهَيْرٌ فِي أَبِي إِسْحَاقَ لَيْسَ بِذَاكَ لأَنَّ سَمَاعَهُ مِنْهُ بِآخِرَةٍ. قَالَ: و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ التِّرْمِذِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: إِذَا سَمِعْتَ الْحَدِيثَ عَنْ زَائِدَةَ وَزُهَيْرٍ فَلاَتُبَالِي أَنْ لاَتَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِهِمَا إِلاَّحَدِيثَ أَبِي إِسْحَاقَ. وَأَبُو إِسْحَاقَ اسْمُهُ: عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السَّبِيعِيُّ الْهَمْدَانِيُّ. وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ، وَلاَ يُعْرَفُ اسْمُهُ.

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 17

کتاب: طہارت کے احکام ومسائل دوپتھرسے استنجا کرنے کا بیان​ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ قضائے حاجت کے لیے نکلے توآپ نے فرمایا: 'میرے لیے تین پتھرڈھونڈلاؤ'،میں دوپتھراورایک گوبرکا ٹکڑالے کرآپ کی خدمت میں آیا توآپ نے دونوں پتھروں کو لے لیا اورگوبرکے ٹکڑے کو پھینک دیا اورفرمایا:' یہ ناپاک ہے' ۱؎ ۔ (ابواسحاق سبیعی ثقہ اورمدلس راوی ہیں، بڑھاپے میں حافظہ میں اختلاط ہوگیا تھا اس لیے جن رواۃ نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا ان کی روایت مقبول ہے ، اور جن لوگوں نے اختلاط کے بعد سنا ان کی روایت ضعیف ، یہ حدیث ابواسحاق سے ان کے تلامذہ نے مختلف انداز سے روایت کی ہے )۔ امام ترمذی نے یہاں ابن مسعود کی اس حدیث کو بسنداسرائیل عن ابی اسحاق عن ابی عبیدہ عن ابن مسعود روایت کرنے کے بعد اسرائیل کی متابعت ۲؎ میں قیس بن الربیع کی روایت کا ذکرکیا ہے ، پھربسندمعمروعماربن رزیق عن ابی اسحاق عن علقمہ عن ابن مسعود کی روایت ذکرکی ہے ، پھربسندزکریابن ابی زائدہ و زہیرعن ابی اسحاق عن عبدالرحمن بن یز ید عن اسودبن یزید عن عبداللہ بن مسعود روایت ذکرکی اورفرمایا کہ اس حدیث میں اضطراب ہے ، نیز اسرائیل کی روایت کوصحیح ترین قراردیا ، یہ بھی واضح کیاکہ ابوعبیدۃ کا سماع اپنے والد ابن مسعود سے نہیں ہے پھروـاضح کیا کہ زہیرنے اس حدیث کو بسندابواسحاق عن عبدالرحمن بن الاسود عن أبیہ عن عبداللہ بن مسعود روایت کیا ہے ،گویا کہ محمدبن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح میں اس کو جگہ دے کر اپنی ترجیح کا ذکرکردیا ہے ، جب کہ ترمذی کا استدلال یہ ہے کہ اسرائیل و قیس عن أبی اسحاق زیادہ صحیح روایت اس لیے ہے کہ اسرائیل ابواسحاق کی حدیث کے زیادہ حافظ ومتقن ہیں ، قیس نے بھی اسرائیل کی متابعت کی ہے ، اور واضح رہے کہ زہیرنے ابواسحاق سے آخرمیں اختلاط کے بعد سناہے ،اس لیے ان کی روایت اسرائیل کی روایت کے مقابلے میں قوی نہیں ہے۳؎ ۔