کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 91
اجازت دیجیے کہ سہیل بن عمرو کے اگلے دو دانت اکھاڑ لوں تاکہ اس کی زبان باہر لٹک جائے اور آپ کے خلاف کبھی کہیں بھی تقریر نہ کرسکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( لَا أُمَثِّلُ بِہٖ فَیُمَثِّلُ اللّٰہُ بِیْ وَإِنْ کُنْتُ نَبِیًّا ، وَأَنْ عَسَی أَنْ یَّقُوْمَ مَقَامًا لَ)ا تُذَمَّہُ۔))[1] ’’میں اس کا مثلہ نہیں کروں گا کہ اللہ تعالیٰ میرا مثلہ کر دے، اگرچہ میں نبی ہوں۔ امید ہے کہ (آئندہ) وہ کسی ایسے مقام پر کھڑا ہو جہاں تم اس کی مذمت نہ کرسکو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ مکہ کے کچھ لوگ اسلام سے پھر جانے کا ارادہ رکھتے تھے اور ان سے مکہ کے گورنر عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کافی ہراساں تھے، یہاں تک کہ چھپ گئے۔ اس وقت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد وثنا بیان کی، پھر وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا، اور فرمایا: ’’یہ چیز تو اسلام کی طاقت میں اضافہ کرنے والی ہے، جس نے ہمیں شک میں ڈالا ہم اس کی گردن اڑا دیں گے۔‘‘ پھر لوگ اپنے خیالات سے باز آگئے۔ [2] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث بیان کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت سنا تھا جب آپ غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کے مقتولین سے مخاطب تھے۔ پس انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، ہم نے ایک دوسرے کو چاند دکھایا، میری نگاہ تیز تھی۔ میں نے چاند پہلے دیکھ لیا اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا: کیا آپ اسے نہیں دیکھ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اپنے بستر پر لیٹے ہوئے میں ابھی اسے دیکھ لوں گا۔ پھر آپ بدر والوں کے بارے میں ہمیں بتانے لگے۔ کہا: کل ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان (مشرکین) کی ہزیمت گاہ دکھا رہے تھے۔ آپ کہتے تھے کہ ان شاء اللہ کل اس مقام پر فلاں چت ہوگا اور اس مقام پر فلاں چت ہوگا۔ پھر وہ (جن کے نام لیے تھے)ان مقامات پر گرتے گئے۔ میں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! وہ اس مقام سے ذرّہ برابر نہ ہٹے، وہاں مارے جا رہے تھے، پھر آپ نے ان کے بارے میں حکم دیا اور وہ کنویں میں ڈال دیے گئے۔ آپ ان کے پاس گئے اور کہا: اے فلاں! اے فلاں! کیا جس چیز کا اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا تم نے اسے حق پایا؟ میں نے اس چیز کو حق پایا جس کا اللہ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ان لوگوں سے بات کر رہے ہیں جو مردہ ہوگئے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو میں ان سے کہتا ہوں اسے تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو، لیکن وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔ [3]
[1] مناقب أمیر المومنین عمر ابن الخطاب/ ابن الجوزی، ص:۸۹ [2] الفاروق مع النبی، د/ عاطف لماضۃ، ص: ۳۲ [3] الطبقات/ ابن سعد: ۳/ ۳۹۱، ۳۹۲ سند منقطع ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ [4] السیرۃ النبویۃ/ ابن ہشام: ۲/ ۳۸۲۔ صحیح التوثیق، ص:۱۸۷ [5] الخلافۃ والخلفاء الراشدین/ البہنساوی، ص:۱۵۴ [6] اس کتاب کا اردو ترجمہ عنقریب منظر عام پر آنے والا ہے۔ (ان شاء اللہ) [7] البدایۃ والنہایۃ: ۳/ ۲۹۸