کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 90
آئندہ مباحث میں ہم ان شاء اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان جہاد میں آپ کے نظریات وکردار اور مدینہ کی زندگی میں بارگاہِ نبوت میں آپ کی معاشرتی زندگی کے چند خصائص ذکر کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدانِ جہاد میں: علماء کا اتفاق ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ بدر، احد اور تمام غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور کبھی غائب نہیں ہوئے۔ [1] ۱: غزوۂ بدر: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معرکہ سے قبل صحابہرضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے اور بہتر بات کہی اور کافروں سے جنگ کا مشورہ دیا۔ پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ بولے اور بہتر بات کہی اور کافروں سے جنگ کرنے کا مشورہ دیا۔ [2] غزوۂ بدر میں مسلمانوں میں سے سب سے پہلے مہجع [3] کی شہادت ہوئی، جو عمر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔ [4] عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عقیدہ (توحید) کے مقابلے میں رشتہ وقرابت کو دیوار پر مارتے ہوئے اپنے ماموں عاص بن ہشام [5]کو قتل کیا اور اپنے اس فکر وعقیدہ کی تائید میں اس عمل کو باعث فخر سمجھتے تھے، معرکہ بدر ختم ہونے کے بعد آپ نے مشرکین کے قیدیوں کو قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ اس واقعہ میں عبرت وموعظت کی عظیم باتیں ہیں، جنہیں میں نے اپنی کتاب ’’السیرۃ النبویۃ، عرض وقائع وتحلیل احداث‘‘[6] میں ذکر کیا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس قیدیوں میں پکڑ کر لائے گئے تو آپ کی خواہش تھی کہ وہ ہدایت قبول کرلیں، چنانچہ کہا: اے عباس! اسلام لے آؤ۔ اللہ کی قسم، تمہارا اسلام لانا میرے نزدیک خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور مجھے یہ خواہش اس وجہ سے ہے کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں تمہارا ایمان لانا ہی پسندیدہ ہے۔ [7] ان قیدیوں میں قریش کا ماہر خطیب سہیل بن عمرو بھی تھا۔ آپ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۱۵ [2] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۶۶۳۲ [3] سنن أبی داود/ الصلوٰۃ، حدیث نمبر: ۱۴۹۸، سنن ترمذی/ الدعوات، حدیث نمبر: ۳۵۶۲۔ امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ سنن ابن ماجہ/ المناسک: ۲۸۹۴ بروایت عمرؓ، اور محدث عصر حاضر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (مترجم) [4] سنن أبی داود/ الصلاۃ، حدیث نمبر: ۱۴۹۸۔ سنن ترمذی/ الدعوات، حدیث نمبر: ۳۵۶۲ [5] عمر بن الخطاب، د/ محمد أبوالنصر، ص: ۹۴