کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 89
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان والہانہ لگاؤ تھا اور استاد وشاگرد کے درمیان منفرد نوعیت کی علمی فضا تیار کرنے میں ایسے ہی لگاؤ کا اہم کردار ہوتا ہے اور پھر نئی نئی معلومات کی وجہ سے علمی و ثقافتی نتائج کی خوبیاں وبھلائیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرویدہ رہے اور خود کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود اور آپ کی دعوت کی نشر واشاعت کے راستہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔ حدیث میں وارد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ)) [1] ’’تم میں کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: اے اللہ کے رسول! آپ میرے نزدیک میری جان کے علاوہ بقیہ تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! (ایمان مکمل) نہیں، یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا: اب آپ میری جان سے بھی زیادہ مجھے محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب (ایمان مکمل ہوا) اے عمر۔ [2] عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کرنے کی اجازت مانگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تَنْسَایَا أَخَیَّ دُعَائِکَ۔)) [3] ’’اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں نہ بھولنا۔‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نے نہیں پسند کیا کہ دنیا کی کوئی چیز میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ۔ اے میرے بھائی!۔ سے زیادہ پسندیدہ ہو۔‘‘ [4] یہ بلند اور پاکیزہ محبت ہی تھی جس کی وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور جنگی فنون میں تجربہ، مہارت اور فہم وبصیرت نیز انسانوں کی طبیعت اور احساسات کی گہری معرفت نے اس محبت میں چار چاند لگا دیے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت اور آپ کے ساتھ کثرت گفتگو نے عمر رضی اللہ عنہ کو فصاحت وبلاغت، کلام میں روانی اور بات کرنے میں مختلف اسلوب عطا کیے۔[5]
[1] عمر بن الخطاب، د/ محمد أبوالنصر، ص:۹۱٭ [2] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۶۸۱ [3] فتح الباری: ۷/ ۳۶ [4] عمر بن الخطاب، د/ محمد أبوالنصر، ص:۹۳