کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 88
مُبِينٍ (آلِ عمران: ۱۶۴) ’’بلاشبہ یقینا اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں تھے۔ ‘‘ آپ اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں غوطہ زن رہنے کے بہت حریص تھے، خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ کی حالت میں ہوں یا امن کی حالت میں۔ اس طرح عمر رضی اللہ عنہ سنت نبویہ مطہرہ کے بارے میں وسیع علم اور گہری معرفت کے مالک بن گئے۔ یہ معرفت آپ کی شخصیت اور تفقہ کو پروان چڑھانے میں کافی اثر انداز ہوئی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، آپ سے اسلامی شریعت کو سنا اور یاد کیا، جب مجلس نبوت میں تشریف لے جاتے تو مجلس ختم ہونے تک وہاں موجود رہتے۔ آپ کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ جو بات بھی دل میں کھٹکے، یا اسے پریشان کرے اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرلیں۔ [1] آپ نے علم، تربیت اور دین عظیم یعنی اسلام کے مقاصد کی معرفت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض اٹھایا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آپ کی خصوصی نگہداشت کی، انہیں اپنا فیض پہنچایا اور ان کے لیے علم کی گواہی دی۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ شَرِبْتُ یَعْنِیْ اللَّبَنَ حَتَّی أَنْظُرَ إِلَی الرَّیِّ یَجْرِیْ فِیْ ظُفْرِیْ أَوْفِیْ أَلْجَفَارِیْ۔ ثُمَّ نَاوَلْتُ عُمَرَ۔ قَالُوْا: فَمَا أَوَّلْتَہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: اَلْعِلْمَ۔)) [2] ’’میں نے خواب میں دودھ پیا، اتناپیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ (اس کی) تروتازگی میرے ناخن یا ناخنوں کے نیچے سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے پیالہ عمر کو دے دیا۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس کی کیا تاویل ہے؟ آپ نے فرمایا: علم۔‘‘ حافظ ابن حجر کا قول ہے کہ یہاں علم سے مراد قرآن وسنت کی روشنی میں لوگوں پر سیاست کرنے کا علم ہے۔ [3] درحقیقت یہ معرفت اسی کو حاصل ہوسکتی ہے جو قرآنِ کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھنے کے معاون اسباب ووسائل پر گہری نظر رکھتا ہو، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ زبان وادب کے سمجھنے کا قوی ملکہ ہو، اس کے اسلوب کی معرفت پر مہارت ہو، بلکہ ہر وہ تجربہ اور علم جو شریعت فہمی کے لیے معاون ثابت ہو اسے حاصل کیا جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ ان تمام خصوصیات کے مالک تھے۔ [4]
[1] عمر بن الخطاب، د/ محمد أحمد أبوالنصر، ص: ۸۸ [2] عمر بن الخطاب، د/ محمد أحمد أبوالنصر، ص: ۸۸