کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 87
ہے، بلکہ ساتھ ہی اس فیضِ ربانی کا تصور بھی کار فرما ہوتا ہے جو اللہ کی طرف سے آپ کی ذات کو شامل ہے۔ پس وہ آپ کے ساتھ وحیِ الٰہی کی موجودگی میں فیضانِ الٰہی سے مستفید ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں عظیم انسان اور عظیم رسول اکٹھا ہوجاتے ہیں۔ پھر آخر میں دونوں اس طرح ایک ہوجاتے ہیں کہ جس کی ابتدا اور انتہا کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ ایک گہری محبت ہوتی ہے جو رسول بشر، یا بشر رسول کو شامل ہوتی ہے اور اللہ کی محبت اس کے رسول کی محبت سے مربوط ہوتی ہے، اور وہ دونوں محبتیں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں، پھر وہی دونوں محبتیں اس مومن کے تمام تر احساسات وجذبات کی بنیاد اور شعور وکردار کی تمام حرکتوں کا محور قرار پاتی ہیں۔ یہی محبت جس نے صحابہ کے پہلے ہراول دستے کو متحرک کیا، یہی اسلامی تربیت کی کنجی، نقطۂ ارتکاز اور محور ہے۔ [1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت وتربیت کی برکت سے صحابہ کرام کو اعلیٰ ایمانی کردار میسر آیا۔اس تزکیہ وتربیت کے بارے میں سید قطب فرماتے ہیں: ’’وہ تزکیہ نفس تھا، ان خامیوں کی تطہیر تھی جن کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی گرفت کرتے تھے۔ ضمیر وشعور اور عمل وکردار کی تطہیر تھی، ازدواجی اور اجتماعی زندگی کی تطہیر تھی، وہ ایسی تطہیر وتربیت تھی جس کی وجہ سے انسانی نفوس مشرکانہ عقائد کی پستیوں سے عقیدہ توحید کی بلندیوں، باطل تصورات سے صحیح عقائد اور پیچیدہ خرافات سے واضح یقین تک پہنچتے ہیں۔ اخلاقی بے راہ روی کی نجاستوں سے نکل کر ایمانی اخلاق اور سود ورشوت کی آلائشوں سے بچ کر پاک کمائی کی طرف پرواز کرتے ہیں۔ یہ وہ تزکیہ وتربیت ہے جو فرد، جماعت اور انفرادی واجتماعی زندگی کو شامل ہے۔ ایسا تزکیہ وتربیت جو انسا ن اور اس کے خیالات وتصورات کو دنیا کی ہر چیز یہاں تک کہ خود اس کی ذات اور حیات کو بھلا کر اسے نور کے افق تک پہنچا دیت ہے جہاں پہنچ کر انسان اپنے ربّ سے مل جاتا ہے اور مکرم ومعزز فرشتوں سے معاملہ کرتا ہے‘‘[2] جناب عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف تلمذ حاصل کیا، آپ سے قرآن کریم، سنت نبوی، احکام تلاوت اور تزکیۂ نفس کے اسباق سیکھے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ
[1] عمر بن الخطاب، د/ محمد أحمد أبوالنصر، ص: ۸۸