کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 843
۹: عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بعض مستشرقین کے اقوال: الف:ولیم میور اپنی کتاب ’’الخلافہ‘‘ میں لکھتا ہے: ’’سادگی اور فرض منصبی کی ادائیگی عمر ( رضی اللہ عنہ ) کے اہم اصولوں میں شامل تھی، غیر جانبداری اور اخلاص آپ کی حکومت کی نمایاں خصیوصیت تھی، آپ ذمہ داری کا پورا پورا لحاظ رکھتے تھے، عدل کا احساس ہمیشہ غالب رہتا تھا، افسران کے انتخاب میں کبھی بے جا طرف داری نہ کی، باوجودیہ کہ آپ اپنا درہ ہمیشہ ساتھ رکھتے اور مجرم کو بروقت سزا دیتے اور جس درہ کے بارے میں یہاں تک کہا گیا کہ دوسروں کی تلوار کے مقابلے میں عمر ( رضی اللہ عنہ ) کا درہ کافی ہوتا تھا، آپ نرم دل تھے، شفقت و مہربانی سے بھرپور آپ کے کارنامے رہے۔ اس کی مثال بیواؤں اور یتیموں پر آپ کی بے انتہا شفقت ہے۔‘‘[1] ب: برطانوی دائرۃ المعارف کی شہادت ہے کہ ’’عمر( رضی اللہ عنہ ) عقل مند اور دور اندیش حاکم تھے، آپ نے اسلام کے لیے بہت عظیم خدمات انجام دی ہیں۔‘‘[2] ت: واشنگٹن اِرونگ اپنی کتاب ’’محمد اور ان کے خلفاء‘‘ میں لکھتا ہے: ’’عمر ( رضی اللہ عنہ ) کی اوّل تا آخر پوری زندگی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ بڑی ذہنی صلاحیتیوں کے مالک تھے، استقامت وعدالت پر سختی سے کاربند تھے، آپ نے اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تمناؤں کو پورا کیا اور مستحکم انداز میں انہیں نافذ کیا، ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) کی مختصر سی مدت خلافت میں اپنے مشورہ اور نصیحتوں سے ان کی تائید کی اور اسلامی سلطنت کے زیر نگیں تمام مفتوحہ ممالک میں کامیاب اور پرحکمت نظام کے لیے نہایت مضبوط اصول وضع کیے، دور دراز ممالک میں فتح وغلبہ کے وقت اسلامی افواج کے محبوب نظر بڑے بڑے جرنیلوں اور قائدوں پر شفقت کا مضبوط ہاتھ رکھنا اور انہیں تمام تائیدات سے نوازنا آپ کی فرماں روائی کی معجزانہ صلاحیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ آپ نے اپنی اخلاقی سادگی و تواضع کے اظہار، دنیوی چمک دمک اور عیش و عشرت کی تحقیر میں نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ابوبکر کو اپنے لیے نمونہ بنایا اور فاتح قائدین اور جرنیلوں کے نام خطوط لکھنے، نیز انہیں ہدایات وتعلیمات دینے میں انہیں دونوں کے نقش قدم پر چل کر دکھایا۔‘‘[3] ج: ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کا کہنا ہے کہ عمر ( رضی اللہ عنہ ) کے نقوش یقینا اثر انداز ہونے والے ہیں۔ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بعد اسلام کی نشرواشاعت میں آپ کی شخصیت کا اہم مرکزی کردار رہا۔[4] آپ کی فتوحات کی تیز رفتاری کو اگر تسلیم نہ کیا جائے تو یہ شبہ ہوتا ہے کہ آج جتنے وسیع رقبہ میں اسلام موجود ہے اس حد تک اسلام کیسے پھیلا، جب کہ بیشتر علاقے جنہیں مسلمانوں نے فتح کیا تھا وہ آج بھی عرب ہیں اور ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں۔
[1] الإدارۃ فی الاسلام فی عہد عمر بن الخطاب، ص:۳۹۲۔ [2] الإدارۃ فی الإسلام فی عہد عمر بن خطاب، ص: ۳۹۳۔ [3] تراث الخلفاء الراشدین فی الفقہ والقضاء، ص:۴۶، ۴۷۔ [4] أخبار عمر، ص: ۵۔