کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 842
نام جو خطوط لکھے تھے وہ عدل و قضا اور منصفی کے محکموں کے لیے آج بھی دستور کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ خطوط عدلیہ کی خود مختاری اور فوجداری کے قوانین کی کامل ترین شکل ہیں۔‘‘[1] ج: محمود شیت خطاب کا کہنا ہے: ’’اسلامی فتوحات کی وسعت کے اگرچہ کئی اسباب ہیں، لیکن ان میں اہم اور سرفہرست عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی منفرد اوصاف کی حامل قیادت کا حصہ ہے، جو آپ کے علاوہ پوری تاریخ میں نظر نہیں آتی اس کا وجود نادر ہے۔[2] ح: ڈاکٹر صبحی محمصانی کا قول ہے کہ ’’خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور ختم ہونے کے ساتھ ایک وسیع ومستحکم اسلامی سلطنت کے بانی کا دور ختم ہوجاتا ہے۔ آپ ایک فاتح قائد، باشعور و عالی ہمت امیر، ذمہ دار نگران، مہربان، نرم دل، انصاف پسند اور قوی حاکم تھے، آپ نے فرض منصبی کی ادائیگی اور سچائی و نیکی کی چوکھٹ پر خود کو قربان کر دیا، اللہ کے برگزیدہ بندوں، صدیقین اور صالحین کی فہرست میں آپ نے بھی اپنا نام درج کروا لیا، (ان شاء اللہ)۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نام انسانی تہذیب و تمدن اور فقہ و بصیرت اور تمدن کی تاریخ میں ہمیشہ چمکتا ہوا باقی رہے گا۔‘‘[3] س: علی طنطاوی کہتے ہیں: ’’عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت وخصائص کے بارے میں جیسے جیسے میری معلومات میں اضافہ ہوتا گیا آپ کے ساتھ میری دلچسپی اور عقیدت بڑھتی گئی، میں نے مسلم اور غیر مسلم ہزاروں عظیم شخصیتوں کی سیرتوں کا مطالعہ کیا، تو دیکھا کہ کوئی فکر و دانائی میں بلند ہے، کوئی زبان و بیان میں، کسی کو اخلاقیات میں برتری حاصل ہے تو کسی کے نقوش و کارنامے سب سے اعلیٰ ہیں۔ گویا سب کی الگ الگ خصوصیات ہیں۔ لیکن جب میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو پڑھا تو دیکھا کہ ہر چہار جانب سے ان پر عظمتوں کا تاج ہے۔ آپ بلندیٔ فکر کے حامل ہیں اور اخلاق و بیان کے بھی شہ سوار ہیں۔ اگر آپ نامور فقہائے امت و علمائے اسلام کو شمار کرنا شروع کریں تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سرفہرست پائیں گے، اگر خطباء و بلغاء کی فہرست دیکھیں تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نام سب سے پہلے دیکھیں گے، اگر قانون دانی کے ماہروں، فوجی سپہ سالاروں کے ممتاز دانش وروں اور کامیاب حکمرانوں کے سرکردہ افراد کا ذکر چھیڑیں تو عمر رضی اللہ عنہ کو ہر گروہ میں پیش پیش اور ان کا امام پائیں گے اور اگر حکومت ومملکت آباد کرنے والے اور زمین میں اپنے آثار و نقوش چھوڑنے والے دنیا کے بڑے بڑے انسانوں کو تلاش کریں تو ان میں عمر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر بلند مقام اور شرف وعظمت والا کوئی نظر نہ آئے گا۔ مزید برآں آپ اخلاق کے دھنی اور تواضع کے شاہکار تھے۔‘‘[4]
[1] الإدارۃ فی الإسلام فی عہد عمر بن الخطاب، ص:۳۹۲۔ [2] الإدارۃ فی الإسلام فی عہد عمر بن الخطاب، ص:۳۹۲، التاریخ الإسلامی: ۱؍۶۰۹۔