کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 834
ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہے، اس وقت بڑے ہو چکے تھے، ۱۲ ہجری میں عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلام لائے۔[1] اسلام لانے سے پہلے یمن کے ممتاز علمائے یہود میں سے تھے، اسلام لانے کے بعد صحابہ کرام سے کتاب وسنت کی تعلیمات سیکھیں، صحابہ اور دوسرے لوگوں نے ان سے امت محمدیہ سے پہلے کی امتوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں، آپ شام چلے گئے تھے، حمص میں مقیم رہے اور وہیں وفات ہوئی۔[2] امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش میں کعب احبار کو بھی متہم کیا گیا ہے، چنانچہ طبری نے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے، جس میں عمر رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش میں ان کی شرکت کی طرف اشارہ ملتا ہے ۔ اس روایت میں ہے کہ: ’’پھر عمر رضی اللہ عنہ لوٹ کر اپنے گھر آئے، دوسرے دن صبح ہوئی تو ان کے پاس کعب احبار آئے اور کہنے لگے: اے امیرالمومنین! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ تین دنوں میں آپ مر جائیں گے۔ آپ نے پوچھا: تمہیں کیسے معلوم ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے اللہ کی کتاب تورات میں اسے پڑھا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا یقینا تم تورات میں عمر بن خطاب کا ذکر پاتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ آپ کے اوصاف اور جسمانی حلیہ کو میں نے پڑھا ہے اور اس حساب سے اب آپ کی عمر ختم ہو رہی ہے۔ راوی کہتا ہے کہ یہ سن کر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو نہ کوئی تکلیف ہوئی اور نہ کوئی غم۔ دوسرے دن پھر صبح کے وقت کعب احبار آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے امیرالمومنین! ایک دن تو ختم ہو چکا، اب صرف ایک دن اور ایک رات باقی ہے اور یہ رات بھی صرف صبح تک آپ کا ساتھ دے گی۔ راوی کا کہنا ہے کہ: تیسرے دن جب صبح ہوئی تو آپ نماز فجر کے لیے نکلے، آپ کی عادت تھی کہ نماز شروع ہونے سے پہلے کچھ لوگوں کو صفیں درست کرنے کے لیے مکلف کر رکھا تھا اور جب صف برابر ہو جاتی تو آپ آتے اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کرتے۔ چنانچہ آج بھی ایسا ہی کیا، (نماز شروع ہوئی تو) ابو لؤلؤ مجوسی لوگوں میں گھس گیا، اس کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا اس کے دوسرے تھے، پکڑنے کی جگہ درمیان میں بنائی گئی تھی۔ اسی خنجر سے اس نے عمر رضی اللہ عنہ پر چھ وار کیے۔ ایک ضرب تو زیر ناف لگی اور وہ اتنی کاری تھی کہ وہی جان لیوا ثابت ہوئی۔[3] اس روایت کو سامنے رکھتے ہوئے بعض جدید مفکرین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش میں کعب احبار برابر کے شریک تھے، مثلاً ڈاکٹر جمیل عبداللہ مصری نے اپنی کتاب ’’اثر اہل الکتاب فی الفتن والحروب الأہلیۃ فی القرن الأول الہجری‘‘ میں، اسی طرح عبدالوہاب نجار نے ’’الخلفاء الراشدون‘‘ میں اور غازی محمد فریج نے اپنی کتاب ’’النشاط السری الیہودی فی الفکر والممارسۃ‘‘ میں یہی بات لکھی ہے۔[4]لیکن ڈاکٹر احمد بن عبداللہ بن ابراہیم الزغیبی نے کعب احبار کی طرف
[1] مناقب أمیرالمومنین، ص:۲۳۰، الحسبۃ، د/ فضل إلٰہی، ص:۲۷۔ [2] صحیح مسلم ، کتابالجنائز: ۲۱؍۹۲۷۔ مسند أحمد: ۱؍۳۹۔ [3] سیر الشہدء، ص:۴۳۔ [4] سیر الشہداء، دروس و عبر، ص:۴۵۔