کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 832
ہمیں انہیں جیسا اخلاق وکردار اور تواضع عطا فرمائے اور اپنے متقی ومتواضع بندوں کو جس اجر و ثواب سے نوازے گا اس سے بہتر اجر و ثواب سے انہیں نواز دے۔ ’’اِنَّ رَبِّی قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ‘‘[1] ب: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایثار عظیم: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایثار عظیم کی دلیل یہ ہے کہ ان کی دلی تمنا تھی کہ اپنے شوہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو اور اپنے والد محترم کے پاس دفن ہوں، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے التجا کی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور اپنی ذات پر ان کو ترجیح دی اور کہا: میں اسے اپنے لیے چاہتی تھی لیکن آج میں عمر کے مطالبہ کو اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں۔[2] ۴: بستر مرگ پر بھی بھلائی کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے رہے: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ موت کے آلام و شدائد کو جھیلتے ہوئے بھی فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے غافل نہ ہوئے۔ جب آپ پر حملہ ہوا تو آپ کی تعزیت میں اور آپ کو تسلی دینے کے لیے ایک نوجوان آپ کے پاس آیا اور کہا: اے امیرالمومنین! بشارت قبول فرمایے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی، پہلے اسلام لائے، پھر آپ حاکم بنائے گئے تو عدل وانصاف سے کام لیا اور اب شہادت کی موت مر رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا: میں چاہتا ہوں کہ برابر برابر چھوٹ جاؤں، نہ مجھ پر کسی کا حق نکلے نہ میرا کسی پر۔ پھر وہ نوجوان واپس جانے لگا تو آپ نے دیکھا کہ اس کی ازار زمین پر گھسٹ رہی ہے۔ آپ نے کہا: اس نوجوان کو میرے پاس بلاؤ، وہ آیا تو آپ نے کہا: اے میرے عزیز! اپنی ازار اوپر کر لو، اس سے تمہارا کپڑا صاف اور تمہارا رب خوش رہے گا۔[3]اس طرح عالم موت میں بھی آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کیا۔ اسی لیے عمر بن شبہ کی روایت کے مطابق ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ عمر پر رحمت نازل کرے، عالم نزع میں بھی آپ حق بات کہنے سے غافل نہ ہوئے۔[4] اسی طرح زندگی کے آخری لمحات میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر خصوصی توجہ دینے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب آپ کی صاحبزادی حفصہ رضی اللہ عنہا آپ کی زیارت کو آئیں تو کہنے لگیں: ہائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی، ہائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خسر، ہائے امیرالمومنین۔ عمر رضی اللہ عنہ کو یہ سن کر برداشت نہ ہوا اور اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا: اے عبداللہ! مجھے بٹھاؤ، میں جو کچھ سن رہا ہوں، اب اس سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے سینے سے ٹیک دے کر بٹھا دیا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا: سن لو! اگر اب اس کے بعد تم نے میری خوبیوں کا ذکر کر کے نوحہ کیا تو اپنی وراثت سے تمہیں تمہارا مالی حق نہیں دوں گا۔ رہیں تمہاری
[1] الرقائق، محمد أحمد الراشد، ص:۱۲۱،۱۲۲۔ [2] صحیح البخاری مع الفتح، فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر ۳۷۰۰۔ [3] صحیح البخاری مع الفتح، فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر ۳۷۰۰۔