کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 829
ب: جس وقت مجوسی نے عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کیا، اس وقت مزید تیرہ(۱۳) صحابہ پر بھی وار کیا، جن میں سے سات اسی وقت شہید ہوگئے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ پر حملہ کرنے کے بعد دو دھاری خنجر لے کر (ابولؤلؤ) مجوسی فرار ہوا، دائیں بائیں جو بھی ملتا اس پر وار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ تیرہ (۱۳) لوگوں کو زخمی کر دیا، ان میں سات کی شہادت ہوگئی۔[1] پس بفرض محال (معاذ اللہ) مجوسی کے لیے مغیرہ رضی اللہ عنہ سے بروقت سفارش نہ کر کے عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر ظلم کیا تھا اور وہ ظالم تھے تو بقیہ تیرہ (۱۳) صحابہ کرام کا کیا قصور تھا، جن پر اس نے خنجر چلایا؟ بلا شبہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کوئی ظلم نہ کیا تھا، صحیح بخاری میں ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ ہوا تو آپ نے کہا: اے ابن عباس! دیکھو میرا قاتل کون ہے؟وہ ادھر ادھر کچھ دیر گھومتے اور خبر لیتے رہے، پھر واپس لوٹے اور آپ کو بتایا کہ: مغیرہ کا غلام۔ آپ نے پوچھا: کیا وہی کاری گر۔ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: اللہ اس کو ہلاک کرے، میں نے اس کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا تھا۔ شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ اس نے کسی کلمہ گو کے ہاتھوں مجھے موت نہیں دی۔[2] اسی ابولؤلؤ مجوسی قاتل کے لیے اعدائے اسلام (شیعوں) نے ایران میں گم نام فوجی کے طرز پر ایک یادگار مزار بنایا ہے، نجف کے عالم سید حسین موسوی لکھتے ہیں کہ ’’ایران کے شہر کاشان میں، باغی فین کے علاقہ میں ایک گم نام فوجی کے طرز پر مزار پایا جاتا ہے، اس میں خلیفہ ثانی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قاتل ابولؤلؤ فیروز فارسی مجوسی کی وہمی قبر ہے، اس کو بابا شجاع الدین کا مزار کہا جاتا ہے۔ وہ لوگ (شیعہ) ابولؤلؤ مجوسی کو بابا شجاع الدین کا لقب دیتے ہیں، اس لیے کہ اس نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا۔ اس مزار کی دیواروں پر فارسی زبان میں لکھا ہوا ہے: ’’مرگ بر ابوبکر، مرگ بر عمر، مرگ بر عثمان۔‘‘یہ مزار ایرانی شیعوں کی ایک اہم زیارت گاہ ہے۔ وہاں روپیوں پیسوں کے نذرانے چڑھائے جاتے ہیں، میں نے اس مزار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ایرانی وزارت مذہبی امور نے حکومتی خرچ پر اس میں تجدید و توسیع کی ہے۔ مزید برآں اس مزار کی تصویر پر ڈاک ٹکٹ جاری کیا ہے۔[3] ۲: عاجزی و فروتنی اور خوف وخشیت الٰہی عمر رضی اللہ عنہ کا امتیازی وصف: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے دل پر خشیت الٰہی کا کتنا زبردست غلبہ تھا اس کا اندازہ آپ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے یہ معلوم ہونے کے بعد کہ آپ کا قاتل ابولؤلؤ مجوسی ہے، فرمایا:
[1] الطبقات الکبٰری، ابن سعد: ۳/۲۸۴۔ [2] البطقات الکبرٰی: ۳/۲۸۴، العشرۃ المبشرون بالجنۃ، ص: ۴۴۔ [3] سیر الشہداء دروس و عبر، عبدالحمید السحسیبانی، ص:۳۶۔ [4] الطبقات الکبرٰی: ۳/ ۳۴۵، اس کی سند صحیح ہے۔