کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 827
نے آپ کو گھیر لیا، وہ سب آپ کے لیے دعائے خیر کرنے لگے، میں بھی ان لوگوں میں موجود تھا۔ اچانک ایک آدمی نے پیچھے سے میرا کندھا پکڑا جس سے میں گھبرا گیا، مڑ کر دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے، کہنے لگے: عمر! اللہ تم پر رحم فرمائے، تم نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس جیسا عمل کرتے ہوئے اللہ سے ملوں۔ اللہ کی قسم! مجھے تو یہ یقین تھا کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کثرت سے یہ کہتے ہوئے سنتا تھا: میں گیا اور ابوبکر و عمر گئے، میں اور ابوبکر و عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکر و عمر باہر آئے۔[1] ۶: مسلمانوں پر آپ کی شہادت کے اثرات: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی شہادت مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سانحہ تھی، کیونکہ کسی طویل بیماری کے بعد آپ کی وفات نہ ہوئی تھی، بلکہ یہ حادثہ اچانک پیش آیا تھا۔ یہ حادثہ اس وجہ سے اور بھی دل دوز ہوگیا کہ اس کا ظہور مسجد نبوی میں ہوا تھا اور اس وقت ہواتھا جب سیّدناعمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ اس حادثہ کے بعد مسلمانوں پر کیا گزری اس کا نقشہ عمرو بن میمون رحمہ اللہ اس طرح کھینچتے ہیں: ’’مسلمانوں کے لیے یہ ایسا جانکاہ حادثہ تھا کہ ایسا لگتا تھا جیسے اس سے پہلے ایسی مصیبت ان پر کبھی نہ آئی ہو۔‘‘ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے زخم خوردہ ہونے کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینے نکلے تاکہ آپ کو مطلع کر دیں، جب لوٹ کر آئے تو کہنے لگے: جن لوگوں سے بھی میری ملاقات ہوئی ،میں نے انہیں غم سے نڈھال روتا ہوا پایا، ایسا معلوم ہوتا تھا گویا ان کا اکلوتا بیٹا فوت ہوگیا ہے۔[2] چونکہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ رشد وہدایت کا ایک مینار تھے، حق اور باطل کے درمیان جدائی کرنے والے تھے، اس لیے فطری بات تھی کہ لوگ آپ کی وفات سے متاثر ہوتے۔[3]لوگوں کے شدید رنج وغم کا یہ عالم تھا کہ احنف بن قیس کے بقول جب عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا گیا تو آپ نے صہیب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کی امامت کریں اور تین دن ان کے کھانے پینے کا بندوبست کریں یہاں تک کہ مجلس شوریٰ کسی کو اپنا خلیفہ منتخب کر لے۔ چنانچہ جب دستر خوان پر کھانا رکھا گیا تو لوگوں نے (اظہار غم میں) کھانے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے لوگو! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو ہم نے کھانا پینا بند نہیں کیا اور جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو بھی ہم نے کھانا پینا بند نہیں کیا، پس آج بھی ضروری ہے کہ کھاؤ پیو، پھر آپ نے کھانا شروع کیا اور بعد میں لوگوں نے بھی کھایا۔[4]
[1] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد: ۳/ ۳۶۷، محض الصواب: ۳/۸۴۵۔ [2] الفتاوٰی: ۱۵/۱۴۰۔ [3] محض الصواب: ۳/ ۸۴۶۔ [4] ابن مروان الاموی خلفاء بنی امیہ میں سے ہیں ۔ [5] صحیح البخاری، الجنائز: ۱۳۲۶۔ [6] صحیح البخاری، الاعتصام: ۲۶۷۱، ۶۸۹۷۔ [7] محض الصواب: ۳/۸۴۷۔ [8] محض الصواب: ۳/۸۴۷۔