کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 822
جہاد کرے گا اور مالی پریشانیوں سے بے فکر ہوگا۔ آپ نے نصیحت میں کہا ہے: ’’خود ان سے زیادہ مال فے نہ لینا ورنہ انہیں ناراض کر دو گے، جب وہ عطیات لینے آئیں تو دے دینا ورنہ انہیں محتاج بنا دو گے۔‘‘ ۴: مالی واقتصادی پہلو: ا: ملکی اموال کو لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کے ترازو سے تقسیم کرنا لازم ہے اور ان تمام طریقوں کا تدارک کرنا ضروری ہے جن سے صرف کسی ایک طبقہ میں دولت سمٹ کر رہ جاتی ہو اور دوسرے لوگ محروم رہتے ہوں۔ یہی مفہوم ہے آپ کی اس وصیت کا کہ ’’دولت صرف مال داروں کے ہاتھوں میں نہ گردش کرتی رہے۔‘‘ ب: ذمی لوگ جب تک مقررہ جزیہ وخراج ملک کو دیتے رہیں ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا جائز نہیں۔ فرمایا: ’’ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنا۔‘‘ ج: رعایا کے مالی حقوق کی ضمانت لی جائے، اس میں انتہا پسندی سے اجتناب کیا جائے۔ وصیت میں کہا گیا ہے کہ: ’’مفتوحہ ممالک کے باشندوں سے وہی کچھ لینا جو ان کی ضرورت سے زائد ہو۔‘‘ اور کہا: ’’دیہات کے عرب باشندوں میں ان کے مال داروں سے زکوٰۃ لے کر انہی کے محتاجوں میں تقسیم کر دینا۔‘‘[1] ۵: معاشرتی پہلو: ا: رعایا کا اہتمام، اس کی خبر گیری، ضروریات کی تکمیل اور عطیات ووظائف سے ان کے مالی حقوق کی پوری پوری ادائیگی ضروری ہے۔ دوران وصیت میں آپ نے فرمایا تھا: ’’جب عطیات دینے کا وقت آجائے تو انہیں واپس نہ لوٹاؤ۔‘‘ ب: ذاتی ترجیحات، طرف داری اور خواہشات کی پیروی سے اجتناب لازم ہے، کیونکہ اس سے رعایا کی کج روی، معاشرتی فساد اور انسانی تعلقات میں بے چینی وبگاڑ کا قوی اندیشہ ہے۔ اسی لیے آپ نے کہا تھا: ’’مومنوں کے جس مال کا اللہ نے تمہیں ذمہ دار بنایا ہے اس کی تقسیم میں جانب داری نہ کرنا۔‘‘ اور ’’مال داروں کو محتاجوں پر ترجیح نہ دینا۔‘‘ ج: رعایا کے چھوٹے بڑے ہر فرد کا احترام کرنا اور اس کے سامنے خاکساری برتنا۔ اس لیے کہ اس سے انسانی ومعاشرتی تعلقات میں بھلائی و برتری کا ظہور ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے رعایا کے دل میں اپنے قائد وحاکم کی محبت بڑھ جاتی ہے۔ آپ کا کہنا تھا: ’’اللہ کے لیے مسلمانوں پر رحم کرنا، بڑوں کا احترام کرنا، چھوٹوں پر مہربانی کرنا اور علماء کی عزت و توقیر کرنا۔‘‘ د: رعایا کے سامنے کشادہ ظرفی کا ثبوت دینا۔ بایں طور کہ ان کی شکایات سنی جائیں، اور انہیں انصاف دلایا جائے۔ ورنہ رعایا کے تعلقات کے درمیان اضطراب رونما ہوگا اور معاشرہ مختلف قسم کی پیچیدگیوں میں الجھ کر