کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 82
٭ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بعض آیات کی تفسیر کرنا اور تعلیق لگانا: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ قرآن کی تفسیر بالرائے کو باعث گناہ سمجھتے تھے، اسی لیے جب آپ سے اللہ تعالیٰ کے کلام: ’’ وَالذَّارِیَاتِ ذَرْوًا‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: اس سے مراد ہوائیں ہیں اور اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تفسیر کرتے ہوئے نہ سنتا تو میں ایسا نہ کہتا۔ آپ سے کہا گیا: ’’فَالْحٰمِلَاتُ وَقْرًا‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس سے مراد بادل ہیں اور اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی تفسیر کرتے ہوئے نہ سنتا تو ایسا نہ کہتا۔ اور کہا گیا: ’’فَالْجَارِیَاتِ یُسْرًا‘‘ تو آپ نے فرمایا: اس سے مراد کشتیاں ہیں اور اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی تفسیر کرتے ہوئے نہ سنا ہوتا تو ایسا نہ کہتا۔ اور کہا گیا: ’’فَالْمُقَسِّمَاتُ اَمْرًا‘‘ سے کیا مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس سے مراد فرشتے ہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تفسیر نہ سنی ہوتی تو ایسا نہ کہتا۔ [1] آیات کی تفسیر میں آپ کا ایک خاص منہج اور انداز تھا۔ اگر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی تفسیر پاتے تو اسے لے لیتے اور وہی افضل ہوتا، جیسا کہ اس کی مثال ابھی ہمارے سامنے سے گزری اور جب بعض صحابہ کے پاس جن سے تفسیر کے علم ہونے کا امکان ہوتا جیسے کہ ابن عباس، ابی بن کعب، عبداللہ بن مسعود اور معاذ رضی اللہ عنہم وغیرہ کے پاس تفسیر نہ پاتے، مثال کے طور پر ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم کے صحابہ سے کہا کہ یہ آیت کریمہ: أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ (البقرۃ:۲۶۶) ’’کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو، جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں، اس کے لیے اس میں ہر قسم کے کچھ نہ کچھ پھل ہوں اور اسے بڑھاپا آپہنچے اور اس کے کمزور بچے ہوں، پھر اسے ایک بگولا آپہنچے، جس میں ایک آگ ہو تو وہ بالکل جل جائے۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے کھول کر آیات بیان کرتا ہے، تاکہ تم سوچو۔ ‘‘ کس کے بارے میں نازل ہوئی؟ صحابہ نے کہا: اللہ اعلم۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ غصہ ہوگئے اور کہا: تم کہو کہ ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: امیر المومنین! اس آیت کے بارے میں میرے دل میں کچھ بات ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! اپنی بات کہو اور اپنے آپ کو کم تر نہ سمجھو۔ ابن عباس نے فرمایا: ایک عمل کی مثال دی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون سا عمل؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کوئی بھی نیک عمل۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس مال دار آدمی کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت وفرماں برداری کا عمل کرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے شیطان بھیجتا ہے، پھر وہ گناہ والے اعمال کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے سارے اعمال برباد کر دیے جاتے ہیں۔ [2]
[1] مسند أحمد، الموسوعۃ الحدیثیۃ، حدیث نمبر: ۳۱۱ [2] تفسیر ابن کثیر: ۴/ ۲۶۶