کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 819
مال داروں کو محتاجوں پر ترجیح نہ دینا، اسی میں ان شاء اللہ تمہارے دل کی سلامتی، گناہوں کی معافی اور انجام کی بہتری ہے، یہاں تک کہ اسی حالت میں تم اس ہستی (اللہ) تک پہنچ جاؤ جو تمہارے بھیدوں سے واقف ہے اور تمہارے اور تمہارے دل کے مابین حائل ہے۔ میرا حکم ہے کہ اللہ کے حقوق، حدود اور اس کے مجرموں کے تئیں ہمیشہ سخت رہنا، خواہ وہ قریبی ہوں یا اجنبی۔ اس سلسلہ میں کسی کے لیے تمہارے دل میں اس وقت تک کوئی نرم گوشہ نہ ہو جب تک کہ جرم کے مطابق اسے سزا نہ دے دو، رعایا کا ہر فرد تمہاری نگاہ میں یکساں ہو۔ حق کو حق دار تک پہنچانے میں کوئی تردد نہ کرو، اللہ کے دین کے لیے کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ کرنا۔ مومنوں کے جس مال کا اللہ نے تمہیں ذمہ دار بنایا ہے اس کی تقسیم میں جانب داری نہ کرنا کہ کسی پر ظلم و زیادتی کرنے لگو اور اس چیز سے اپنے آپ کو محروم کر لو جس کے سلسلہ میں اللہ نے تمہیں وسعت دی ہے۔ تم دنیا اور آخرت کے عظیم منصب پر فائز ہو، کشادگی اور اسباب دنیا کی فراوانی کے باوجود اگر تم نے دنیا میں عدل وانصاف اور پاک دامنی سے کام لیا تو اپنے ایمان کو مضبوط کیا اور اللہ کی رضا پائی اور اگر نفس پرستی کا تم پر غلبہ ہوگیا تو اللہ کے غیظ وغضب کو دعوت دی۔ ذمیوں پر خود یا کسی دوسرے کو ظلم کرنے کی قطعاً اجازت نہ دو۔ میں نے تمہیں جو کچھ نصیحتیں اور وصیتیں کیں ان کے ذریعہ سے اللہ کی رضا مندی اور آخرت کی بہتری تلاش کرو۔ میں نے تمہاری انہی چیزوں کی طرف رہنمائی کی ہے جس پر خود اپنے وجود اور اپنے لڑکے کو مائل کرتا ہوں۔ لہٰذا جو کچھ میں نے تمہیں نصیحت کی ہے اسے اگر تم نے اچھی طرح یاد کر لیا اور عمل پیرا ہوئے تو اپنی خوش قسمتی اور اچھے بدلے کا پورا پورا حصہ لیا اور اگر تم نے اسے قبول نہ کیا، اس کو کوئی اہمیت نہ دی اور اللہ کی مقررہ حدود پر رکنے پر اکتفا نہ کیا تو تمہاری ناقدری ہوگی اور اس میں تمہاری اپنی رائے کا دخل ہوگا۔ کیونکہ خواہشات سارے انسانوں کے درمیان مشترک ہیں اور تمام غلطیوں کی جڑ ابلیس ہے جو ہر مہلک چیز کی طرف بلاتا ہے، اس نے تم سے پہلے کی گزشتہ اقوام کو گمراہ کر دیا، انہیں جہنم میں داخل کرایا اور جہنم کتنی بری جگہ ہے، اور انسان کی یہ کتنی بری کمائی ہے کہ اس کی قسمت میں اللہ کے دشمن کی دوستی آئے جو اللہ کی نافرمانیوں کی طرف ہمہ وقت دعوت دیتا ہے۔ حق پر جمے رہو، زندگی کی آخری سانس اسی پر بند ہو، اپنے آپ کو نصیحت کرتے رہو۔ اللہ کے واسطے مسلمانوں پر رحم کرنا، بڑوں کا احترام کرنا، چھوٹوں پر مہربانی کرنا اور علماء کی عزت و توقیر کرنا، مسلمانوں کو مارنے اور ذلیل کرنے سے پرہیز کرنا، خود ان سے زیادہ مال فے نہ لینا، ورنہ انہیں ناراض کر دو گے۔ جب عطیات دینے کا وقت آجائے تو انہیں واپس نہ لوٹاؤ ورنہ انہیں محتاج بنا دو گے۔ سرحدوں پرا نہیں زیادہ دن نہ روکنا ورنہ خدشہ ہے کہ ان کی نسل ہی ختم ہو جائے۔ دولت صرف مالداروں
[1] تاریخ الطبری ۵/۲۲۵۔ [2] تاریخ الطبری ۵/۲۲۵۔ [3] أولیات الفاروق، السیاسیۃ: ص۱۲۷۔