کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 817
مرتبہ کو دیکھتے ہوئے یہ عظیم کام سونپا تھا۔[1] ابن سعد کی روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے انصار سے کہا: ان لوگوں کو تین دنوں کے لیے ایک گھر میں چھوڑ دو اگر کوئی بہتر نتیجہ لے کر نکلتے ہیں تو بہتر ہے ورنہ سب کی گردن مار دو۔[2] یہ روایت بھی سنداً منقطع ہے، نیز اس کی سند میں سماک بن حرب ہے جو ضعیف ہے اور آخری عمر میں حافظہ خراب ہوگیا تھا۔[3] اس باب میں ابن سعد کی وہ روایت سب سے زیادہ صحیح ہے جس کے تمام راوی ثقہ ہیں، اس میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے کہا: تین دن لوگوں کی امامت کرو اور اس چھ نفری جماعت کو ایک گھر میں چھوڑ دو، یہ لوگ جسے خلیفہ منتخب کر لیں (اس کی اطاعت کرو) اور جو ان کی مخالفت کرے اسے قتل کر دو۔[4] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اس اثر میں اس آدمی کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں جو ان منتخب اراکین کے انتخاب کی مخالفت کرے، مسلمانوں کے اتحاد کو توڑے اور ان میں گروہ بندی پیدا کرے اور عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت میں کہی تھی: (( مَنْ أَتَاکُمْ وَأَمْرُکُمْ جَمِیْعٌ عَلٰی رَجُلٍ وَّاحِدٍ ، یُرِیْدُ أَنْ یَّشُقَّ عَصَاکُمْ أَوْ یُفَرِّقُ جَمَاعَتَکُمْ فَاقْتُلُوْہُ۔)) [5] ’’جو شخص تمہارے پاس آئے، اس حال میں کہ تم اپنے میں سے کسی ایک کی امارت پر متفق ہو چکے ہو اور وہ آکر تمہارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہتا ہو اور تمہاری جماعت کو گروہوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہو تو اسے قتل کر دو۔‘‘ ھ: اختلاف کے وقت فیصل کون ہو؟ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے یہ نصیحت کی تھی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان چھ لوگوں کے ساتھ مجلس شوریٰ میں شریک ہوں گے، البتہ انہیں خلافت کے سلسلہ میں کوئی اختیار حاصل نہ ہوگا۔ اور ان سب سے کہا کہ اگر تین آدمی اپنے کسی ایک کو، اور تین اپنے کسی ایک کو خلافت کے لیے منتخب کر لیں تو عبداللہ بن عمر کو فیصل بنانا۔ جس کے حق میں وہ فیصلہ دے دیں اسے چاہیے کہ اپنے آدمی کو امیر منتخب کر لے اور اگر عبداللہ بن عمر کا فیصلہ منظور نہ ہو تو ان لوگوں کے ساتھ ہو جانا جن میں عبدالرحمن بن عوف ہوں گے، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی نیکی اور تقویٰ شعاری کا ذکرکرتے ہوئے کہا: عبدالرحمن بن عوف کیا ہی بہتر رائے دینے والے ہیں، نیک اور ہدایت یاب ہیں، اللہ کی طرف سے ان کی محافظت ہو رہی ہے، تم ان کی باتیں مانو۔[6] و: پاک طینت و تقویٰ شعار جماعت کے ذریعہ سے انتخابی کارروائی کی نگرانی اور ہنگامہ آرائی پر قدغن: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور ان سے کہا: اے ابوطلحہ! اللہ نے تم لوگوں كو ذریعہ اسلام
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۱۴۲، یہ آپ کے بہنوئی بھی تھے۔ (مترجم) [2] أشہر مشاہیر الإسلام فی الحرب والسیاسۃ، ص:۶۴۸۔ [3] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد: ۳/۳۶۴۔ [4] تاریخ الطبری: ۵/۲۲۶۔