کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 815
میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا گہرا ایمان، سچا ایثار او ر کامل اخلاص نمایاں طور پر نظر آرہا ہے۔[1]عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے موت وحیات کی کشمکش اور زندگی کے نازک ترین مرحلہ میں نئے خلیفہ کے انتخاب کے لیے ایسا جدید طریقہ ایجاد کیا جس کی ماقبل میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ انتخاب خلیفہ کے باب میں آپ کی یہ جدت طرازی اس بات کی غماز ہے کہ اسلامی سلطنت کو چلانے میں آپ کو عمیق سیاسی بصیرت کا ملکہ تھا۔ آپ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے لیکن صریح لفظوں میں کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کیا۔ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اور اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ممتاز و بزرگ صحابہ سے مشورہ لینے کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو امت مسلمہ کا خلیفہ نامزد کر دیا۔ لیکن جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے بستر مرگ پر تھے اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کر دیں تو آپ نے کچھ دیر خاموشی سے غور و فکر کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ وقت کا تقاضا ہے کہ نامزدگی کا کوئی دوسرا اصول وضع کیا جائے، جو اس تقاضا کو پورا کر سکے، کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس وقت تمام مسلمان ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت اور اسلام لانے میں ان کی سبقت و قربانی کے معترف تھے، ان کی خلافت پر اختلاف رونما ہونے کا احتمال بہت ہی کم تھا۔ خاص طور سے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے امت محمدیہ کو یہ رہنمائی کر دی تھی کہ میرے بعد ابوبکر ہی میرے خلیفہ بننے کے زیادہ مستحق ہیں اور جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نامزد کیا تو آپ کو بخوبی اندازہ تھا کہ تمام صحابہ اس بات پر قانع و متفق ہو جائیں گے کہ عمر رضی اللہ عنہ ہی سب سے زیادہ قوی، با صلاحیت، افضل اور اس لائق ہیں کہ ذمہ داری کو نبھا سکیں۔ اس لیے ممتاز و بزرگ صحابہ سے مشورہ لینے کے بعد انہیں خلیفہ نامزد کر دیا اور کسی نے مخالفت نہیں کی اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت پر سب کا اجماع ہوگیا۔[2] رہے عمر رضی اللہ عنہ ، تو آپ نے نئے خلیفہ کے انتخاب کا یہ طریقہ ایجاد کیا کہ چھ صحابہ کی ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی، وہ سب صحابہ بدری تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری زندگی کے آخری لمحات تک ان سے خوش تھے اور معمولی تفاوت کے ساتھ سب کے سب قائدانہ صلاحیت کے مالک تھے۔ آپ نے اس کمیٹی کے سامنے واضح کر دیا کہ انتخاب کا طریقہ کیا ہوگا، کتنے دنوں میں انتخاب کر لینا ضروری ہے اور یہ کہ نئے خلیفہ کے انتخاب کے لیے کتنے ووٹ کافی ہوں گے۔ نیز یہ بتا دیا کہ ووٹ برابر ہو جائیں تو فیصل اور مرجح کون ہوگا؟ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے چند پاک طینت و تقویٰ شعار لوگوں کو مجلس شوریٰ کی نگرانی پر مقرر کر دیا کہ وہ ان لوگوں کی انتخابی کارروائی پر نظر رکھیں گے اور جو جماعت کی مخالفت کرے گا اسے سزا دیں گے۔ آپ نے ہنگامہ آرائی کے تمام دروازوں کو یہ کہہ کر بند کر دیا کہ اہل حل وعقد کی مجلس شوریٰ میں جو کچھ باتیں ہوں وہ باہر نہ جائیں اور نہ کوئی اندر جا کر انہیں سنے۔[3]
[1] صحیح البخاری، فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر: ۳۷۰۰۔ [2] صحیح التوثیق فی سیرۃ حیاۃ الفاروق، ص:۳۶۹۔ [3] صحیح التوثیق فی سیرۃ حیاۃ الفاروق، ص:۳۶۹۔