کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 813
بھلائی کرنے کا حکم دیا تھا۔ بہرحال اللہ کا شکر ہے، اس نے مجھے کسی ایسے شخص کے ہاتھ سے قتل نہیں کرایا جو خود کو مسلمان کہتا ہو۔ اے ابن عباس! تم اور تمہارے والد یہ چاہتے تھے کہ یہ مجوسی غلمٹے مدینہ میں خوب آباد ہوں۔ عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بہت زیادہ غلام تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر آپ کہیں تو ان سب غلمٹوں کو قتل کرا دوں۔ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ کیا غلطی کر رہے ہو، جب وہ تمہاری عربی زبان بولنے لگے، تمہارے قبلے کی طرف نماز پڑھنے لگے اور تمہاری طرح حج کرنے لگے تو پھر کیوں کر قتل کر سکتے ہو؟ پھر عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر اٹھا کر لائے گئے، ہم بھی ان کے ساتھ گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا مسلمانوں پر اس سے پہلے کوئی مصیبت ہی نہیں گزری۔ کوئی کہتا تھا: گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ کوئی کہتا تھا: مجھ کو تو ڈر ہے (وہ جان بر نہ ہوں گے)۔ پھر آپ کو کھجور کا شربت پلایا گیا۔ آپ نے اسے پیا تو پیٹ سے باہر نکل گیا، پھر دودھ لایا گیا، آپ نے اسے بھی نوش کیا، لیکن وہ بھی زخم سے باہر نکل پڑا۔ اب سب نے جان لیا کہ آپ بچنے والے نہیں، عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس گئے، اور لوگ بھی آئے، سب ان کی تعریف کر رہے تھے… آپ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بلایا اور کہا: عبداللہ! دیکھو کہ میرے اوپر قرض کتنا ہے؟ لوگوں نے حساب کیا تو چھیاسی ہزار درہم یا کم و بیش کچھ ایسا ہی قرض نکلا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میری اولاد کا مال اس قرض کو کافی ہے تو ان کے مال میں سے یہ قرض ادا کر دینا، ورنہ (میری قوم) بنی عدی بن کعب سے سوال کرنا، اگر ان سے بھی یہ قرض ادا نہ ہو سکے تو قریش کے لوگوں سے مانگنا، بس قریش کے سوا اوروں سے نہ مانگنا۔ اس طرح میرا قرضہ ادا کر دینا۔ اور (اے عبداللہ) تم عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ عمر آپ کو سلام کہتا ہے، یہ نہ کہنا کہ امیرالمومنین سلام کہتے ہیں۔ آج میں مسلمانوں کا امیر نہیں ہوں۔ پھر ان سے یہ کہنا کہ عمر آپ سے اجازت مانگتا ہے۔ اگر اجازت دیجئے تو وہ اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ حجرے میں دفن ہو۔ چنانچہ عبداللہ رضی اللہ عنہ گئے اور سلام کر کے اندر جانے کی اجازت مانگی، پھر اندر گئے تو دیکھا کہ وہ خود عمر رضی اللہ عنہ کے غم میں رو رہی تھیں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: عمر بن خطاب آپ کو سلام کہتے ہیں اور آپ سے اپنے دونوں ساتھیوں کے پاس دفن کیے جانے کی اجازت چاہتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: وہ جگہ تو میں نے اپنے لیے رکھی تھی مگر آج میں ان کو اپنی ذات پر مقدم رکھوں گی۔ جب عبداللہ رضی اللہ عنہ لوٹ کر آئے تو لوگوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ عبداللہ آگئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھ کو ذرا اٹھاؤ۔ ایک شخص نے ان کو اٹھا کر اپنے اوپر ٹیک دے دی۔ آپ نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کہو، کیا خبر لائے ہو؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہی جو آپ کی آرزو تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: الحمد للہ، میرے نزدیک کوئی چیز اس سے زیادہ اہم نہ تھی اب جب میں مرجاؤں تو میرا جنازہ اٹھا کر لے جانا تو ان (عائشہ رضی اللہ عنہا ) کو سلام کہنا اور کہنا: خطاب کا بیٹا عمر آپ سے اجازت چاہتا ہے۔ اگر وہ اس وقت بھی اجازت دیں تو میری لاش حجرے میں لے جانا اور دفن کر دینا، ورنہ مسلمانوں کے مقبرے (بقیع غرقد) میں دفن کر دینا۔ عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ: جب آپ کی وفات ہوگئی تو ہم
[1] الخلفاء الراشدون: خالدی، ص:۸۳۔