کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 810
۳: عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کا خواب: عوف بن مالک اشجعی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں میں نے خواب دیکھا[1]کہ آسمان سے ایک رسی لٹک رہی ہے، لوگ آگے بڑھ بڑھ کر اسے پکڑنا چاہتے ہیں، لیکن عمر رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے تین گز سبقت لے گئے اور اسے پکڑ لیا۔ میں نے سوچا اس کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے؟ پھر خیال آیا کہ وہ اس دنیا میں اللہ کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ ہوں گے، حق کے لیے کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے اور شہادت کی موت مریں گے۔ عوف کہتے ہیں کہ صبح ہوئی تو میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور واقعہ کہہ سنایا۔ انہوں نے کہا: اے لڑکے! جاؤ اور ابو حفص (عمر رضی اللہ عنہ ) کو میرے پاس بلا لاؤ۔ جب وہ آئے تو آپ نے کہا: اے عوف! تم نے جس طرح خواب دیکھا ہے ان سے بیان کرو۔ جب میں خواب بیان کرتے ہوئے یہاں تک پہنچا کہ ’’اس دنیا میں وہ اللہ کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ ہوں گے‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ بول پڑے کہ کیا سونے والا یہ سب دیکھ سکتا ہے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنا خواب بتاتے رہو۔[2] پھر جب عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور حکومت میں باب جابیہ پر آئے اور خطاب کر رہے تھے تو مجھے دوران خطاب میں بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا، جب خطاب سے فارغ ہوئے تو کہا: اپنا خواب مجھے بتاؤ۔ میں نے کہا: کیا آپ نے مجھے اسے بیان کرنے سے روک نہیں دیا تھا؟ آپ نے کہا: اے فلاں! میں نے تمہیں دھوکا دیا تھا۔[3] اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ نے اس خواب کا انکار نہیں کیا تھا؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، بلکہ میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سامنے شرمندہ ہونے کی وجہ سے ایسا کہا تھا۔ تم مجھے پورا خواب بتاؤ۔[4]جب میں پورا خواب بتا چکا تو آپ نے کہا: جہاں تک خلافت کی بات ہے تو تم دیکھ ہی رہے ہو کہ میں اس پر فائز ہوں اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میں حق کے لیے کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کرتا، تو مجھے امید ہے کہ اس سلسلہ میں اللہ کو میرے موقف کی خبر ہوگی اور جہاں تک یہ بات ہے کہ میں شہادت کی موت مروں گا، تو کیسے ہوگی میری وہ شہادت جب کہ میں جزیرہ عرب میں ہوں۔[5] ۴: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی وفات سے متعلق ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا خواب: ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، انہوں نے کہا کہ: میں نے خواب دیکھا کہ عمدہ نسل کے بہت سارے گھوڑوں کو میں لیے ہوئے ہوں، لیکن سب یکے بعد دیگرے کمزور اور سست ہوتے چلے گئے، صرف ایک اپنی حالت پر باقی رہا۔ میں اسے لے کر ایک پہاڑ کے پاس آیا جس پر کھڑا ہونا ممکن نہ تھا، میں نے دیکھا کہ وہاں
[1] صحیح البخاری مع الفتح، فضائل أصحاب النبیﷺ حدیث نمبر: ۳۶۷۵۔ [2] تاریخ المدینۃ ۳/۸۷۲، سعید بن مسیب تک اس کی سند صحیح ہے۔ [3] الطبقات الکبرٰی، ابن سعد ۳/۳۳۱ اس کی سند حسن ہے۔ تاریخ المدینۃ: ۳/۸۷۲۔ [4] محض الصواب فی فضائل أمیرالمومنین عمر بن خطاب: ۳/ ۷۹۱۔