کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 805
سال قبل اس کے لڑکے ہرقل ثانی قسطنطین نے رومی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی۔ بہرحال خط و کتابت کا یہ سلسلہ ہرقل اوّل کے ساتھ رہا ہو یا ثانی کے ساتھ لیکن یہ مسلّم ہے کہ دونوں میں خط و کتابت ہوتی تھی اور ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما جو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں انہوں نے مدینہ آئے ہوئے رومی بادشاہ ہرقل کے قاصد کے ہاتھ ہرقل کی بیوی کو مدینہ کا قیمتی تحفہ دیا تھا اور اس نے بھی بدلے اور شکریہ میں جواہرات کا بنا ہوا ایک قیمتی ہار امِّ کلثوم رضی اللہ عنہا کو ہدیہ میں بھیجا تھا۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے اپنی بیوی سے لے کر بیت المال میں جمع کرا دیا۔ تاریخی کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ نے اسے بیت المال میں اس لیے جمع کرا دیا تھا کہ انہوں نے وہ ہدیہ عمر رضی اللہ عنہ کی ڈاک کے ساتھ بھیجا تھا۔[1] فاروقی فتوحات کے چند اہم نتائج: ۱: فارس کی ساسانی اور روم کی بازنطینی حکومتوں کا صفحہ ہستی سے نام و نشان مٹ گیا اور ان دونوں کے زوال سے فارس اور روم کے درمیان زمانے سے چلی آرہی جاہلی جنگ اور قتل وخونریزی جس نے دونوں کو سخت نقصان پہنچایا تھا اور جن کا مقصد اقتدار پر قابض رہنے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا، ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی۔ ۲: مشرق میں حدود چین سے لے کر پچھم میں مغرب تک اور جنوب میں بحیرئہ عرب سے لے کر شمال میں ایشیائے کوچک تک پھیلی ہوئی کرئہ زمین کے قلب میں ایک عالمی سلطنت اور قیادت وجود میں آئی، ایسی جدید اور لیاقت مند سلطنت اور قیادت جسے دنیائے انسانیت نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ۳: تمام لوگوں پر ربانی منہج کی سرپرستی قائم ہوئی جب کہ عقیدہ ومذہب کی تبدیلی کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا گیا نہ کالے اور گورے کی کوئی تمیز کی گئی بلکہ سارے لوگوں کو اللہ کی شریعت کی نگاہ میں یکساں شمار کیا گیا، صرف تقویٰ معیار برتری قرار پایا اور لوگوں نے شریعت الٰہی کو اپنی زندگی میں نافذ کر کے امن وراحت، غلبہ واقتدار، روزی میں وسعت اور زندگی میں خیر و برکت محسوس کی۔ ۴: پوری دنیائے انسانیت میں ایک امتیازی شان کے ساتھ امت مسلمہ کا ظہور ہوا، یعنی توحید اور اسلامی شریعت نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا، رنگ پرستی، نسل پرستی اور وطنیت پرستی جیسی غلامی کی زنجیروں سے لوگوں کو آزاد کیا۔ ہر رنگ ونسل کے لوگ قائد بنے اور امت محمدیہ کی نگاہ میں ان کا اونچا مقام و مرتبہ رہا۔ عصبیت وتفریق کی بنیاد پر نہ کبھی ان پر انگلی اٹھائی گئی اور نہ ان کا مرتبہ کم ہوا۔ چنانچہ اخلاص اور عدل ومساوات کا یہی جذبہ تھا کہ وہ اپنے مقابل کی فوج سے کہا کرتے تھے: اگر تم نے ہمارا دین قبول کر لیا تو ہم تم میں اللہ کی کتاب قرآن مجید چھوڑ کر چلے جائیں گے اور جب تک تم اس کے احکامات کے مطابق عمل کرتے رہو گے تمہیں اپنے سارے معاملات میں اختیار ہوگا، تمہیں تمہارا ملک دے کر ہم واپس
[1] فتوح البلدان، بلاذری: ۱/۱۹۴،۱۹۵۔ [2] الفن الحربی فی صدر الإسلامی، عبدالرؤف عون ص:۲۰۱۔ الإدارۃ العسکریۃ: ۱/ ۴۶۵۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/ ۱۳۴۔ الإدارۃ العسکریہ: ۲؍۴۶۵۔ [4] مناقب أمیرالمومنین، ابن الجوزی، ص:۲۱۹،۲۲۰۔