کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 804
سلطنت اسلامیہ کی ملکی حدود کی حفاظت کے لیے آپ نے نہ صرف انہیں دفاعی وسائل پر اکتفا کیا بلکہ موسم کے لحاظ سے سرما و گرما کے لیے مستقل فوجی نظام بھی قائم کیا، جو گشتی دستوں کی شکل میں منظم تیاری کے ساتھ ہر سال موسم سرما و گرما میں سرحدوں کی حفاظت کے لیے روانہ کی جاتی تھیں۔ یہ افواج صرف شامی حدود کے لیے نہیں بلکہ سلطنت اسلامیہ کی مکمل سرحدی حدود پر انہیں اپنی مہم پر روانہ کیا جاتا تھا اور ابوعبیدہ بن جراح، معاویہ بن ابی سفیان اور نعمان بن مقرنرضی اللہ عنہم جیسے بہت سارے عظیم قائدین ان کی قیادت کرتے تھے۔[1] عمرفاروق رضی اللہ عنہ سرحد پر جانے والی افواج کی تنخواہ اور ضروریات و خوراک میں اس وقت تک کے لیے اضافہ کر دیتے تھے جب تک کہ وہ سرحد کی نگرانی پر مامور ہوتی تھیں۔[2]اسی طرح آپ کے قائدین جنگوں کے مواقع پر غازیوں کے لیے اموال غنیمت تقسیم کرتے وقت ان سرحدی مسلح فوجی دستوں کے لیے معرکوں میں شریک ہونے والے مجاہدین کی طرح حصہ لگاتے تھے، اس لیے کہ جب مجاہدین اپنی مہموں پر روانہ ہو جاتے تھے تو یہی لوگ مسلمانوں کے محافظ ہوتے تھے، کہ مبادا کسی طرف سے دشمن ان پر حملہ کر دے۔[3]چنانچہ آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے جانشین کے لیے یہ وصیت کی: ’’میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو فوجی محکمہ سے منسلک افراد کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں، اس لیے کہ وہ اسلام کے پاسبان، مال کو درآمد کرنے والے اور دشمن کو چڑانے و مرعوب کرنے والے ہیں۔ ان سے ان کی ضروریات سے زائد چیزیں ہی لی جائیں اور ان کی خوشی سے ہی لی جائیں۔‘‘[4] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے بین الاقوامی تعلقات: شاہان فارس کے ساتھ آپ کے ہمیشہ جنگی تعلقات رہے۔ آپ کی وفات کے وقت آپ کی افواج یزدگرد کو اسی کے ملک میں مات دے رہی تھیں اور اس کے شہر پر قبضہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھیں، جب کہ شاہ روم نے آپ سے اسی وقت مصالحت کر لی تھی جب آپ نے شام اور جزیرہ فتح کر لیا تھا۔ گویا دونوں ممالک میں ایک گو نہ دوستانہ تعلقات تھے۔ آپ اور شاہ روم کے درمیان خطوط کے تبادلے ہوتے تھے۔ عرب مؤرخین اس بات کے قائل ہیں کہ آپ اور شاہ روم ہرقل کے درمیان خط و کتابت ہوتی تھی لیکن یہ صراحت نہیں ہے کہ جس ہرقل سے آپ نے ملک شام چھینا تھا یہ وہی ہرقل ہے یا اس کا لڑکا قسطنطین ہے جو ہرقل ثانی کہلاتا ہے، کیونکہ ہرقل اوّل کی موت ۶۴۱ء مطابق ۲۱ ہجری میں ہوئی اور اسی سال یعنی سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی وفات سے دو
[1] فتوح مصر، ابن عبدالحکم، الإدارۃ العسکری: ۱/ ۴۶۲۔ [2] تاریخ العیقوبی، ص:۳۳۰۔ [3] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۱۰۳۔ [4] البحریۃ فی مصر الإسلامیۃ وآثارہا الباقیۃ، سعاد ماہر، ص: ۷۷۔ [5] فتوح مصر، ص:۱۹۲، الخطط، مقریزی: ۱/۱۶۷۔ [6] الإدارۃ العسکریۃ : ۱؍۴۶۴۔