کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 802
کارروائی کے لیے انطاکیہ کی سرحد پر ایک فوجی اڈا قائم کیا، جہاں سے رومی محاذ کی سرحدی پٹی پر لڑنے والی اسلامی افواج کے لیے مدد بھیجی جاتی تھی، یہیں سے جرجومہ[1] پر چڑھائی ہوئی اور وہاں کے لوگوں نے اس بات پر صلح کر لی کہ وہ مسلمانوں کے مددگار ہوں گے، ان کے لیے مخبری کریں گے اور ’’لکام‘‘ کے کوہستانی علاقے میں رومیوں کے خلاف ہمیشہ مسلح رہیں گے۔[2] اسی طرح جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ’’بالس‘‘[3] کی سرحد پر گئے تو وہاں بھی جنگجوؤں کی ایک جماعت بنائی اور وہاں شام کے ان نو مسلم عربوں کو ٹھہرایا جو رومی حملوں سے سرحدی علاقوں کی حفاظت کی خاطر آئے ہوئے مسلمانوں کی دعوت پر مسلمان ہوئے تھے۔[4] عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے آخری اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی ایام حکومت میں شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے بھی شام کی ساحلی سرحدوں کی حفاظت کے لیے دفاعی وسائل استعمال کیے۔ سرحدی علاقوں میں اطرسوس،[5]مرقیہ،[6]بلنیاس،[7]اور بیت سلیمہ کے نام سے متعدد حفاظتی قلعے تعمیر کرائے۔ مزید برآں سواحل شام کے جن قلعوں کو اسلامی افواج نے فتح کیا تھا انہیں جدید ترقی دی اور پھر وہاں مقاتل افواج کو کافی تعداد میں ٹھہرایا، سرحد پر نگران چوکیاں بنا کر ان کی نگرانی کا دائرہ وسیع کر دیا، پہرے دار متعین کیے جو ہمہ وقت اس چیز پر نگاہ رکھتے کہ دشمن سرحد کے قریب نہ آنے پائے، اگر دشمن کہیں سے حملہ آور ہوتے یا در اندازی کی کوشش کرتے تو وہاں کی نگران چوکی آگ جلا کر اپنے قریب کی چوکی والوں کو اور وہ اپنے قریب والوں کو دشمن کی حرکتوں سے آگاہ کر دیتے اور مختصر سی مدت میں یہ خبر فوجی اڈوں، مسلح دستوں اور شہروں میں عام ہو جاتی۔ پھر سارے لوگ دشمن کی دراندازی روکنے اور اسے دور بھگانے کے لیے بیک وقت سرحدی محاذ پر روانہ ہو جاتے۔[8] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے دوسری اسلامی سرحدوں کی طرح روم اور مصر کی سرحدی حدود کی حفاظت پر بھی خاص توجہ دی۔ چنانچہ اس علاقہ میں اسلامی افواج کو ٹھہرانے کے لیے آپ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ پہلی فوجی چھاؤنی کے طور پر شہر فسطاط آباد کریں تاکہ اس علاقے میں اسلامی افواج کو رکھا جائے۔ ہر فوجی قبیلہ پر ایک پہرے دار اور عریف مقرر کر دیا اور یہیں سے شمالی افریقہ میں اسلامی فتوحات کے لیے فوجی کارواں روانہ ہونے لگا۔ مزید برآں یہی مصری سرحد کا اہم دفاعی اڈہ تھا اور دوسری کئی ملکی و فوجی ضروریات کی تکمیل بھی اسی سے ہوتی تھی۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے دیگر فوجی اڈوں کے محل وقوع کے لیے جو شرائط رکھیں یہاں بھی وہی شرط رکھی گئی، یعنی اس
[1] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۴۵۵۔ [2] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۴۵۷۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/۴۰۔ [4] فتوح البلدان: ۱/۱۷۵۔