کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 800
مثنی رضی اللہ عنہ نے آپ کے حکم کی تعمیل کی۔[1] اسی طرح سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے معرکہ قادسیہ سے قبل سعد رضی اللہ عنہ کو نصیحت کی تھی: ’’جب تم قادسیہ پہنچو تو وہاں کے تمام چھوٹے بڑے راستوں پر اپنے مسلح دستوں کو پھیلا دو۔‘‘[2] معرکہ جلولاء میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام لکھا کہ اگر اللہ تعالیٰ مہران اور انطاق کی دونوں افواج کو شکست سے دوچار کرتا ہے تو مسلمانوں کی ایک فوج قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کے سپرد کر کے انہیں حلوان کی سرحد پر بھیج دو تاکہ اس علاقہ کو داخلی وخارجی فتنوں سے محفوظ رکھیں اور وہاں جو غازی مسلمان ابھی موجود ہیں یا جو خود جہاد میں جا چکے ہیں اور ان کے اہل وعیال موجود ہیں ان کی طرف سے دفاع کریں۔[3] چنانچہ یہی وجہ تھی کہ عراقی محاذ کے کمانڈر جنرل سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج کو جنگ پر ابھارتے، فارسیوں سے زبردست ٹکر لینے کی انہیں ترغیب دلاتے اور کہتے رہے کہ: تم پیش قدمی کرو، ہماری ملکی سرحدیں بالکل محفوظ ہیں، تمہاری پشت سے تم پر دشمن کے حملہ آور ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے، فاتح دوراں مجاہدین اسلام تمہارے لیے کافی ہیں، ہم نے اپنی سرحدوں کو دشمن سے محفوظ کر دیا ہے اور اسی میں اپنی زندگیاں کھپا دی ہیں۔[4] سرحدی حفاظت کی اس فاروقی سیاست پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے زمانہ میں مسلح فوجی مراکز اس وقت تک قائم نہیں کیے جاتے تھے جب تک کہ فوج کی اعلیٰ قیادت (ہائی کمان) سے اس کی اجازت نہ مل جائے، چنانچہ ان مسلح فوجی مراکز کے قائدین کے نام آپ نے جو حکم نامہ جاری کیا تھا اس میں یہ چیز نمایاں طور سے دیکھی جا سکتی ہے۔ آپ کا حکم تھا کہ فارسیوں کو اپنے بھائیوں کی طرف آنے سے مشغول رکھو، اس کے ذریعہ سے مسلمانوں اور اپنے ملک کی حفاظت کرو، فارس اور اہواز کی سرحد پر مسلح دستوں کو پھیلا دو اور جب تک میرا حکم نہ آجائے وہیں ڈٹے رہو۔[5] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں صرف کوفہ کی سرحدیں چار بڑی سرحدوں پر مشتمل تھیں: حلوان کی سرحد: اس کی حفاظت و نگرانی کے اعلیٰ ذمہ دار اعلیٰ اور سرحدی فوج کے قائد قعقاع بن عمرو تمیمی رضی اللہ عنہ تھے۔ ماسبذان کی سرحد: اس کے ذمہ دار وقائد ضرار بن خطاب فہری تھے۔ قرقیسیا[6] کی سرحد: یہاں کے قائد وذمہ دار عمر بن مالک زہری تھے۔ اور چوتھی موصل کی سرحد تھی جس کے قائد وذمہ دار عبداللہ بن معتم عبسی تھے۔ ان قائدین میں سے اگر کوئی کسی مہم پر چلا جاتا تو دوسرا اس کی نیابت کرتا اور سرحدی امور انجام دیتا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کے یہ فوجی لشکر جب بھی سرحدی علاقوں میں حفاظتی قلعے بناتے یا کوئی شہر بساتے تو سب سے پہلے
[1] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۴۵۲۔ [2] فتوح البلدان: ۱/۱۵۶۔ [3] تاریخ التمدن، جرجی زیدان: ۱/۱۷۹۔ [4] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۴۵۳۔