کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 80
ان کا رب انھیں اپنی طرف سے بڑی رحمت اور عظیم رضامندی اور ایسے باغوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی نعمت ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ بے شک اللہ ہی ہے جس کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔‘‘ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اسلام لانے کے بعد میں اگر صرف مسجد حرام کی تعمیر کروں اور کوئی عمل نہ کروں تو مجھے مزید کسی (عمل) کی ضرورت نہیں ہے، تو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا ان تمام سے افضل ہے۔ (یہ سن کر) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تم اپنی آوازیں بلند نہ کرو، جب نماز ختم ہوجائے گی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھ لوں گا، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ (مذکورہ) آیت نازل فرمائی۔ اور ان کے سامنے واضح کر دیا کہ مسجد حرام کی دیکھ بھال، حج، عمرہ، طواف اور حاجیوں کو پانی پلانے کے مقابلہ میں ایمان اور جہاد افضل ہیں۔ اسی لیے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ کے راستہ (جہاد) میں ایک رات رباط یعنی پہرہ دوں یہ میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ شب قدر میں حجر اسود کے پاس قیام کروں۔ [1] ٭ آپ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض آیات کے بارے میں پوچھنا: عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض آیات کے بارے میں بذاتِ خود پوچھتے تھے اور کبھی کبھار اگر کسی صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی آیت کے بارے میں پوچھتے ہوئے سنتے تو اسے یاد کرلیتے اور طالبانِ علم نبوت میں سے جسے چاہتے اسے سکھاتے۔ چنانچہ یعلیٰ بن امیہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اللہ کے فرمان: فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا (النساء:۱۰۱) ’’تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر ستائیں گے‘‘ کا کیا مطلب ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو امن وسکون عطا کر دیا ہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: جس بات سے تمہیں تعجب ہے میں نے بھی اس پر تعجب کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ((صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰہُ بِہَا عَلَیْکُمْ فَاَقْبَلُوْا صَدَقَتَہٗ۔)) [2] ’’یہ ایک صدقہ ہے اللہ تعالیٰ نے تم پر صدقہ کیا ہے، لہٰذا تم اس کے صدقہ کو قبول کرو۔‘‘ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ کے بارے میں پوچھا گیا: وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ (الاعراف:۱۷۲) ’’اور جب آپ کے ربّ نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا۔‘‘
[1] عمر بن الخطاب، د/ علی الخطیب، ص: ۹۰،۹۱،۹۲ [2] اس روایت کی سند صحیح ہے اور شیخین کی شرط پر ہے۔ الموسوعۃ الحدیثیۃ، مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۸۸