کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 798
کی تھی: حمد وصلاۃ کے بعد! میں تمہیں اور تمہاری فوج کو ہر حال میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہوں کیونکہ اللہ کا تقویٰ دشمن کو زیر کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور جنگ میں سب سے کامیاب چال ہے، تمہیں اور تمہاری فوج کو بتانا چاہتا ہوں کہ تمہیں اپنے دشمن سے جتنا بچ کر رہنا ہے اس سے کہیں زیادہ معاصی سے بچنے کی کوشش کرنا ہے، کیونکہ فوج کو دشمن سے اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا خود اپنے گناہوں سے پہنچتا ہے۔[1] ۱۱: تجارت و زراعت جیسی تمام مصروفیات سے انہیں الگ رکھنا: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے امرائے لشکر کے نام یہ حکم نامہ بھیجا کہ وہ اپنے سپاہیوں کو بتا دیں کہ ان کی سرکاری تنخواہ جاری ہے، ان کے اہل وعیال کے وظائف اور ضروریات زندگی دیے جا رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ کاشتکاری میں نہ مشغول ہوں، اس مسئلہ میں آپ نے سختی کرتے ہوئے بعض اوقات مخالفت کرنے والوں کو سزا بھی دی۔[2] یہ اور اس طرح کی تمام پابندیاں عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس لیے نافذ کی تھیں کہ اسلامی فوج جہاد اور مذہب اسلام کی نشرواشاعت کے لیے ہمہ وقت تیار رہے اور کھیتی باڑی میں مشغول ہو کر صرف زمین سے چمٹ کر نہ رہ جائے کہ ہر وقت اس کا دل اسی میں اٹکا ہوا ہو۔ اور اسی حکمت کے پیش نظر آپ نے ریزر و فوج بھی تیار کر رکھی تھی تاکہ ناگہانی حادثات (مثلاً ملکی بغاوت) میں انہیں لڑائی پر لگایا جا سکے۔ چنانچہ کاشتکاری، خرید و فروخت اور باغات کی نگرانی جیسی مصروفیات سے آپ نے انہیں مکمل طور سے دور رکھا۔[3] ملکی سرحدوں کی حفاظت کا اہتمام: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں پر دشمن کے حملوں کے خوف، اسلامی سلطنت کی حدود میں وسعت ہو جانے کی وجہ سے دشمن کی در اندازی کے اندیشے اور رومیوں سے لڑنے سے طبعی گریز کی وجہ سے جب رومیوں سے معرکہ آرائی کا ذکر چھڑتا تو کہتے: اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ ہمارے اور ان (رومیوں) کے درمیان آگ کے انگاروں کی سرحد قائم ہو جائے اور اس پار جو کچھ ہے وہ ہمارا اور اس پار جو کچھ ہے وہ ان کا ہو جائے۔[4] سلطنت فارس سے ملنے والی اسلامی سرحد کے بارے میں بھی آپ نے ایسی ہی خواہش کا اظہار کیا، آپ نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ فارس اور سواد عراق کے درمیان ایسی سرحدی دیوار قائم ہو جائے کہ وہ ہم تک نہ آسکیں اور نہ ہم ان تک جا سکیں۔ ہمیں عراق کے دیہاتوں کی سرسبز زرعی زمینیں کافی ہیں، میں مالِ غنیمت ملنے کے مقابلے میں مسلمانوں کی حفاظت کو ترجیح دیتا ہوں۔[5] چنانچہ آپ نے سلطنت اسلامیہ کے لیے فوجی اڈے قائم کرنے کا حکم دیا، انہیں مخصوص ذمہ داریاں اور
[1] فتوح الشام، الواقدی: ۱/۱۱۷۔ [2] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۲۳۹۔ [3] ہر دس فوجیوں پر ایک امیر مقرر ہوتا تھا، اس طرح جتنی دہائیاں تھیں تنے امراء تھے، انہیں کو امراء الاعشار کہا جاتا ہے۔ (مترجم) [4] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۲۳۹۔ [5] تاریخ الطبری: ۴/۳۵۶۔ [6] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۲۴۳۔ [7] فتوح الشام: ۱/۱۸، ۲۰۔