کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 797
حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ آخر میں اللہ کی رحمت نازل ہو خاتم النّبیین اور امام المرسلین پر، اور ہر قسم کی تعریف بس اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔‘‘[1] جب یہ خط ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو آپ نے سب کو پڑھ کر سنایا، لوگوں نے سمجھ لیا کہ اس خط کے ذریعہ سے امیرالمومنین ہمیں جہاد پر ابھار رہے ہیں ان کی دلی تمنا ہے اور حکم بھی ہے کہ ہم فضائل اعمال کو لازم پکڑیں اور معصیتوں کے ارتکاب سے منع کر رہے اور نفرت دلا رہے ہیں۔[2] اتنا ہی نہیں بلکہ ’’امرائے اعشار‘‘[3] کی ذمہ داریوں میں یہ بات شامل تھی کہ وہ اپنے ماتحتوں کو جنگ پر ابھاریں۔[4] ۹: ثواب الٰہی اور شہادت کی فضیلت بیان کرنا: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں جنگ قادسیہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کو ثواب الٰہی اور مجاہدین اسلام کے لیے آخرت کی نعمتوں کے حصول کی طرف رغبت دلائی، انہیں جہاد فی سبیل اللہ پر ابھارا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے دین اسلام کی فتح اور اس کی سربلندی کا وعدہ کیا ہے اور عنقریب ان کے ہاتھ اموال غنیمت سے بوجھل ہوں گے، ممالک پر فتح کا پرچم لہرائے گا، نیز آپ نے حفاظ قرآن کو سورئہ جہاد (انفال) تلاوت کرنے کا حکم دیا۔[5] اسی طرح ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ شامی فوج کے درمیان کھڑے ہوئے اور اسے اللہ کا ثواب یاد دلایا، اس کی نعمتوں کا ذکر کیا، انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ جہاد فی سبیل اللہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔[6] اسی طرح عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی وہ نصیحت بھی مشہور ہے جو انہوں نے فلسطینی فوج کو کی تھی: ’’آج جو قتل کر دیا گیا وہ شہید ہوگا اور جو زندہ رہا وہ بھی خوش بخت ہے۔‘‘ پھر آپ نے فوج کو قرآن پڑھتے رہنے اور صبر کرنے کی تلقین کی، اللہ سے ثواب اور اس کی تیار کردہ جنت کو حاصل کرنے کی رغبت دلائی۔[7] ۱۰: حقوق اللہ کی ادائیگی پر زور دینا: سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ کی تمام افواج کو ان لفظوں میں نصیحت
[1] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۲۰۷۔بحوالہ تاریخ الطبری [2] فتح البلدان، بلاذری: ۲/۳۱۴۔ [3] مدینہ سے تقریباً تین دنوں کی مسافت پر حجاز کے راستے پر ایک گاؤں ہے۔ [4] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۲۱۷۔ [5] ’’اھراء‘‘ یہ ھری کی جمع ہے۔ اس کا معنی ہے: وہ بڑا گھر جس میں ملکی سامان رسد رکھا جائے۔ [6] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۲۱۷۔