کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 793
سلمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ عمرو بن معدیکرب اور طلیحہ بن خویلد اسدیرضی اللہ عنہم بھی تھے، کسی بات پر عمرو بن معدیکرب اور سلمان بن ربیعہ کے درمیان تو تو میں میں ہوگئی، عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ملی تو آپ نے خط لکھا: ’’حمد وصلاۃ کے بعد! عمرو کے ساتھ تمہارے غلط برتاؤ کی مجھے خبر ملی ہے تم نے اچھا کام نہیں کیا ہے اور نہ ان سے اچھے طریقے سے پیش آئے ہو، تم اس وقت جس حالت میں دارالحرب میں ہو جب اس حالت میں ہو تو عمرو اور طلیحہ کو خاص اہمیت دو، ان دونوں کو اپنے پاس بلاؤ اور ان کی باتیں سنو، اس لیے کہ جنگ کے بارے میں ان دونوں کو علم و تجربہ ہے۔ جب دارالسلام پہنچ جانا تو جس مرتبہ تک ان دونوں نے خود کو گرا لیا ہے انہیں وہی مرتبہ دینا، علماء کو اپنے سے قریب رکھو۔[1] اور عمرو بن معدیکرب کے نام خط لکھا کہ حمد و صلاۃ کے بعد! امیر لشکر سے تمہاری نوک جھونک اور طعن و تشنیع کی خبر مجھے مل چکی ہے، تمہارے پاس جو تلوار ہے تم اسے صمصامہ[2] کہتے ہو اور میرے پاس جو تلوار ہے میں اسے مصمم[3] کہتا ہوں۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں نے اسے تمہاری کھوپڑی پر رکھ دیا تو اسے اس وقت تک نہ اٹھاؤں گا جب تک کہ میں اس سے تمہارا سر نہ توڑ دوں۔ جب عمرو بن معدیکرب کو یہ خط ملا تو کہنے لگے: اللہ کی قسم وہ ضرور ایسا کر گزریں گے۔ مذکورہ دونوں واقعات عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی فقہ و بصیرت پر شاہد ہیں کہ قائد جنگ کو دارالحرب میں اور خاص طور سے جب فوج دشمن کے بالمقابل ہو کسی سپاہی کی دل شکنی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ محبت و تالیف قلب کی فضا ہموار رکھنی چاہیے اور جو لوگ جنگی فنون کے ماہر ہوں ان سے مشورہ لیتے رہنا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جب دونوں فریق دارالسلام میں واپس لوٹیں تو آپسی تعلقات کو یکسر توڑ دیں اور رفاقت ومحبت کا کوئی شائبہ نہ رہ جائے۔ اسی طرح عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جب ’’رہا‘‘ فتح ہوا تو بسر بن ابی ارطاۃ عامری کی قیادت میں شام سے ایک امدادی فوج آئی، اسے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حکم کے بموجب یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما نے یہاں بھیجا تھا۔ دارالحرب میں (مقام جنگ) میں پہنچ کر بسر اور عیاض رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ عیاض رضی اللہ عنہ کو امدادی فوج کی ضرورت نہ تھی، اس لیے بسر سے کہا کہ اپنی فوج لے کر واپس جاؤ، یہاں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کو جب اطلاع ملی تو آپ نے عیاض رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا اور ان سے طلب کیا کہ اس کی وجہ بتاؤ خاص طور سے اس لیے بھی کہ وہ لوگ تمہاری ہی مدد اور دشمن کو یہ بتانے گئے تھے کہ اسلامی افواج کا سلسلہ بند نہیں ہے تاکہ وہ سہم جائیں اور شکستہ دل ہو جائیں اور جلد سے جلد تمہاری اطاعت قبول کر لیں۔ عیاض رضی اللہ عنہ نے یہ خط پا کر عمر رضی اللہ عنہ کے نام جواب لکھا: ’’میں ڈر گیا کہ کہیں ہمارے سپاہی سرکشی نہ کر جائیں اور ان میں اختلاف پیدا ہو جائے اور چونکہ مجھے مدد کی بھی کوئی خاص ضرورت نہ تھی اس لیے معذرت کر دی اور
[1] نہایۃ الأرب: ۶/۱۶۹۔ [2] تاریخ فتوح الشام، ص:۱۸۶۔ [3] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/۱۷۹۔ [4] تاریخ الخلفاء، السیوطی، ص:۱۳۱۔