کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 792
’’کوچ کے دوران فوج کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤ، انہیں اتنا نہ چلاؤ کہ وہ تھک جائیں، پر سہولت اور پر آرام جگہ ٹھہرنے سے انہیں نہ روکو تاکہ وہ جب دشمن سے مدمقابل ہوں تو ان کی توانائی بحال ہو۔ وہ ایک ایسے دشمن سے لڑنے جا رہے ہیں جو اپنے گھر میں ہے، جس کے سپاہی اور جانور تازہ دم ہیں، دوران کوچ ہفتہ میں ایک دن اور ایک رات قیام کرو تاکہ فوج سستاکر تازہ دم ہو جائے اور اپنے ہتھیار اور سامان درست کر سکے۔ جن لوگوں سے تم نے معاہدہ کر لیا ہو ان کی بستیوں سے دور پڑاؤ ڈالو۔‘‘[1] اسی طرح خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شام میں اسلامی فوج کی مدد کے لیے جب مدینہ سے امدادی فوج روانہ کی تو کمزور لوگوں کے لیے سواری اور سامان سفر کا انتظام کر دیا اور سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کو فوج کا امیر بنایا۔ جب سعید رضی اللہ عنہ نے فوج لے کرکوچ کرنے کا ارادہ کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ذرا ٹھہرو، میں تمہیں کچھ نصیحت کر دوں، پھر آپ فوج کی طرف پیدل گئے اور کہا: ’’اے سعید! میں نے تمہیں اس فوج کا امیر بنایا ہے، ان تمام لوگوں پر تمہیں صرف تقویٰ کی بنا پر برتری حاصل ہے، لہٰذا جب تم انہیں لے کر چلو تو اپنی طاقت بھر ان کے ساتھ مہربانی کرنا، انہیں برا بھلا ہرگز نہ کہنا، جو چھوٹا ہو اسے نظر انداز مت کرنا، صرف طاقتور کو ترجیح نہ دینا، اپنے علاوہ دوسروں کی ٹوہ میں مت لگنا، انہیں ہلاکت کی راہ پر مت ڈالنا، آسان راستے سے لے کر جانا، انہیں لے کر شاہراہ پر رات نہ گزارنا، میری عدم موجودگی میں اللہ تمہارا اور تمہارے ساتھ مسلمانوں کا محافظ و نگران ہے۔‘‘[2] ۳: کوچ کے وقت فوج سے ملنا: سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ جب فوج کو کوچ کرنے کا حکم دیتے تو ان کے درمیان جا کر ایک ایک سے ملتے، انہیں بلند اخلاق و اقدار پر قائم رہنے کی تلقین کرتے۔ چنانچہ آپ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ جب دشمن امان کا مطالبہ کرے تو اسے امان دے دو اور وعدہ وفائی کرو، بدعہدی نہ کرو، کیونکہ بدعہدی تمہارے لیے ہلاکت اور بزدلی کی علامت ہے اور دشمن کے لیے قوت کا ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کے لیے بدنما داغ اور ان کی توہین کا سبب نہ بننا۔[3] ۴: جنگ کے دوران ان کی غلطی نظر انداز کرنا: اگر دوران جنگ کوئی فوجی امیر لشکر کی جزوی مخالفت کر جائے تو اختلاف وانتشار سے بچنے کی خاطر اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اس سلسلے میں اپنے امراء وقائدین کو نصیحت کرتے تھے کہ ’’کسی لشکر یا سریہ کا امیر جنگ کے دوران کسی فوجی پر حد نافذ نہ کرے تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ شیطانی حمیت میں آکر کفار سے جا ملنے پر مجبور کر دے۔‘‘[4] ایک مرتبہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے سلمان بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اسلامی لشکر روانہ کیا، اس میں
[1] الفتاوٰی: ۲۲/۶۰۹۔ [2] نہایۃ الأرب: ۶/۱۶۸۔ [3] فتوح مصر، ابن عبدالحکم، ص:۱۴۱۔ [4] الإدارۃ العسکریۃ: ۱/ ۱۳۷۔