کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 783
رومی زہر آلود تیر برساتے تھے، لیکن مسلمانوں نے ظلم کا بدلہ ظلم سے نہیں لیا۔ رومی فوج پیش قدمی کرتی یا پیچھے پلٹتی دونوں حالتوں میں بستیوں کو لوٹتی اور آگ لگا دیتی، لیکن مسلمانوں نے اپنے بلند اور مثالی اخلاق کی حفاظت کی اور ان کی طرح انسانیت سے گری ہوئی کوئی حرکت نہیں کی۔‘‘[1] روزنٹال کہتا ہے کہ: ’’اسلامی تہذیب و ثقافت کو تنگ نظری نہیں بلکہ اپنی وسعت نظری کی وجہ سے ترقی ملی، ایسی ترقی جس میں عقیدہ کی دعوت شامل تھی اور اس دور کی فکری تحریکات کی خامیوں کی نشان دہی تھی۔ اسلام آگے بڑھتا رہا، قوموں کے درمیان اختلاف زبان اور اختلاف عادات کی جتنی قدیم دیواریں حائل تھیں سب کو مٹا دیا اور تمام اقوام اور تہذیبوں کو موقع دیا کہ مکمل آزادی کی روح عدل ومساوات کی بنیاد پر جدید فکری زندگی کا آغاز کریں۔‘‘[2] تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی کسی کو زور زبردستی کے ذریعہ سے اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا کیونکہ انہوں نے اس فرمان الٰہی کو مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے: ﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللّٰهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (256) (البقرۃ: ۲۵۶) ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بلاشبہ ہدایت گمراہی سے صاف واضح ہو چکی ، پھر جو کوئی باطل معبود کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقینا اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جسے کسی صورت ٹوٹنا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ ‘‘ لوگوں نے اسلام کی خوبیوں کو دیکھا اور اسے ایک عظیم نعمت سمجھ کر قبول کیا ۔ وہ لوگ مسلمانوں کے اسلامی اخلاق سے متاثر ہوئے، انہیں اپنی زندگی میں اسلامی احکامات کی بجا آوری کرتے اور حرام کاموں سے سختی سے پرہیز کرتے دیکھا، نیز اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا کہ امیر لشکر اور اس کے ماتحت رہنے والے سبھی مجاہدین جس بات کی دعوت دیتے ہیں اسے عملاً انجام بھی دیتے ہیں، تو دوسری اقوام نے تیزی سے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا اور ان کے افکار و کردار میں عظمت و شرافت کے چار چاند لگ گئے۔ بلا شبہ خلفاء اور افواج کے کمانڈر اپنی افواج کو اللہ سے استعانت، تقویٰ، اخروی زندگی کی ترجیح، خلوص وللہیت سے جہاد، رب کی رضا جوئی اور گناہوں سے دور رہنے کی نصیحت کرتے تھے۔ ان کی ساری کوشش اور دلی تمنا یہ ہوتی تھی کہ دنیائے انسانیت کو بندوں کی پرستش سے نکال کر بندوں کے رب کی عبادت کی طرف لایا جائے۔ اسی جذبۂ صادق کے نتیجہ میں فوجوں کے
[1] تاریخ العرب العام، سید یو، ص:۱۳۳۔ [2] فتح مصر بین الرؤیۃ الإسلامیۃ والرؤیۃ النصرانیۃ ص:۱۲۶۔