کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 780
یہ تمام اشکالات اس بات کی دلیل ہیں کہ اس واقعہ کو لکھنے اور ترتیب دینے میں مکمل جھوٹ اور ملمع سازی سے کام لیا گیا ہے، لہٰذا ہم بلا جھجک یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمر بن خطاب اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما دونوں کا اس من گھڑت واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ان شریر ذہنوں کی پیداوار ہے جو اسلامی تاریخ کو داغ دار بنانا چاہتے ہیں اور جس چیز کا کوئی وجود نہیں اسے نئے سرے سے ایجاد کرتے ہیں۔[1] پادری بنیامین سے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی ملاقات: مؤرخ ابن عبدالحکم کہتے ہیں کہ اسکندریہ میں قبطیوں کا پادری رہتا تھا، اس کا نام بنیامین تھا۔ جب اس نے رومی مسیحیوں کی طرف سے قبطیوں پر مذہبی قہر ٹوٹتے دیکھتا تو صحرا کی طرف بھاگ گیا تھا اور ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد جب مصر میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی آمد کی خبر سنی تو قبطیوں کو پیغام بھیجا کہ اب روم کی حکومت نہیں بچے گی، ان کی بادشاہی کا زمانہ گزر گیا، تم لوگ عمرو بن عاص کا استقبال اور ان کا تعاون کرو۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ پیغام پانے کے بعد جو قبطی ’’فرما‘‘ میں تھے اسی دن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے نکل پڑے۔[2] قبطی مؤرخ ساویرس بن المقنع کی روایت ہے کہ جب اسکندریہ رومیوں کے دائرہ اختیار میں تھا، اس وقت سانوتیوس نام کا ایک آدمی قبطیوں کے سرداروں میں شمار ہوتا تھا اور جب تک بنیامین پادری صحرا میں روپوش تھا اس وقت تک یہی کنیسہ کے تمام امور کا ذمہ دار تھا۔ اس نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی پیش قدمی کی اطلاع پا کر اپنے بزرگ استاد پادری بنیامین سے متعلق انہیں خبر دی کہ صرف رومیوں کے خوف سے وہ یہاں سے بھاگ گئے ہیں۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے یہ خبر پا کر وہاں اپنے ماتحت عمال کو خط لکھا کہ قبطیوں کا نصرانی پادری بنیامین جہاں کہیں ہو اطمینان سے اور بے خوف ہو کر حاضر ہو جائے، اس کے لیے اللہ کی طرف سے عہد اور امن و امان ہے، اپنے معتقدین اور پیروکاروں کے حالات و ضروریات کی اصلاح کرے اور ان کے معاملات کو دیکھے اور اپنے کنیسا کی دیکھ بھال کرے۔ جب قبطیوں کے اس معزز پادری کو اس بات کی اطلاع دی گئی تو تیرہ سال کی طویل روپوشی کے بعد خوشی سے جھومتا ہوا واپس ہوا اور اس کی آمد پر اس کے معتقدین ہی نہیں بلکہ تمام شہری استقبال کے لیے نکل پڑے، خوشی کے جشن کا ماحول دیکھنے میں آیا۔ جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ بنیامین پادری اسکندریہ پہنچ چکا ہے تو حکم دیا کہ اسے پورے اعزاز و اکرام اور محبت کے ساتھ میرے پاس حاضر کیا جائے۔ وہ آپ کے پاس حاضر کیا گیا اور جب آپ نے اسے دیکھا تو عزت و احترام سے بٹھایا۔ وہ بہت ہی خوبصورت، خوش گفتار اور باوقار آدمی تھا، آپ نے اسے دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا: اب تک جن بستیوں کے ہم مالک ہوئے ہیں ان میں کہیں ایسا خوبصورت آدمی ہم نے نہیں دیکھا۔ پھر بنیامین کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اپنے کنیسا اور تمام معتقدین ومتبعین کی اچھی طرح دیکھ بھال کرو اور ان کے احوال وضروریات پر اچھی طرح نگاہ رکھو۔ اس کے بعد
[1] عمرو بن العاص القائد والسیاسی، ص:۱۳۳۔ [2] عمرو بن العاص القائد والسیاسی، ص:۱۳۴۔