کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 779
(غسل خانوں) پر تقسیم کرنا شروع کر دیا تاکہ اس کو جلا کر پانی گرم کیا جائے۔ اس وقت کئی حمامات کے نام مجھے یاد تھے لیکن اب بھول گیا۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ چھ مہینے میں یہ کتب خانہ جل کر ختم ہوا، جب اس واقعہ کو سنتا ہوں تو تعجب کرتا ہوں۔[1] لیکن کتب خانہ نذر آتش کیے جانے کا واقعہ ابن القفطی اور ابن العبری سے عبداللطیف بغدادی متوفی ۶۴۹ہجری موافق ۱۲۳۱ء جو ان دونوں سے پہلے کا ہے ذکر کیا ہے، لکھتا ہے: ’’وہ علم کا گہوارہ تھا جسے شہر بساتے وقت اسکندر نے بنایا تھا، اس میں کتابوں کا خزانہ تھا جسے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی اجازت سے فاتح اسکندریہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نذر آتش کر دیا تھا۔‘‘[2] لیکن جب ہم ان روایات کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو چند قابل توجہ پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مثلاً: ۱: مذکورہ تینوں روایات کے مضامین میں اتفاق نہیں ہے اور نہ ان روایات کے ناقلین اور واقعہ میں تاریخی حیثیت سے باہمی ربط ہے۔ مزید برآں یہ سب ناقلین معمولی فرق کے ساتھ ہم عصر تھے۔ ۲: ان روایات کی قطعاً کوئی سند نہیں ہے۔ یہ صرف اعتراضات ہیں جنہیں گڑھ لیا گیا ہے۔ ۳: ان روایتوں کا تعلق اس دور سے ہے جب مصر فتح ہوئے اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اس پر امارت کیے ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا تھا۔ اس قدر تاخیر سے ان روایات کا ظہور اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ یہ محض ایک من گھڑت واقعہ ہے اور اسے تسلیم کر لینے کی صورت میں کئی اشکالات سامنے آتے ہیں: * اس واقعہ کو نقل کرنے والے راویوں سے صدیوں پیشتر جن مؤرخین نے فتح مصر کی تاریخ لکھی ہے کسی نے اسکندریہ کے کتب خانہ کے نذر آتش کیے جانے کا واقعہ نہیں لکھا۔ * اس واقعہ کا ذکر واقدی، طبری، ابن اثیر، ابن خلدون، ابن عبدالحکم اور یاقوت حموی جیسے معتبر وقدیم مؤرخین میں سے کسی نے نہیں کیا ہے۔ * زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ صلیبی جنگوں کے دور میں بغدادی نے مخصوص دباؤ کے نتیجے میں یہ واقعہ گھڑا تھا۔ یا ممکن ہے کہ بغدادی کے بعد کے ادوار میں گھڑا گیا ہو اور اس کی طرف منسوب کر دیا گیا ہو۔ * اگر یہ مان لیا جائے کہ اسکندریہ کا یہ کتب خانہ واقعتا موجود تھا تو یہ بات کچھ بعید نہیں کہ رومی اسکندریہ سے کوچ کرتے ہوئے یہ کتب خانہ اپنے ساتھ لے گئے ہوں۔ * سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے لیے یہ ممکن تھا کہ اس کتب خانہ کو چھ مہینے کی طویل مدت تک جلانے کے بجائے مختصر سے وقت میں اسے دریا برد کر دیتے۔
[1] فتوح مصر، ص:۶۹۔ [2] التاریخ الإسلامی: ۱۲/ ۳۵۶۔