کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 772
انہوں نے کہا: پھر ہم ان کی کون سی شرط مان لیں؟ مقوقس نے کہا: میں بتاتا ہوں… رہی یہ بات کہ اپنا دین چھوڑ کر دوسرا دین قبول کر لو تو میں اسے نہیں کہوں گا اور جہاں تک ان سے جنگ لڑنے کی بات ہے تو مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تم ان کا مقابلہ اور ان کی طرح صبر نہیں کر سکتے۔ ایسی صورت میں تمہارے سامنے تیسری ہی شرط بچ رہی ہے۔ اس کے ساتھیوں نے کہا: تو کیا ہم ہمیشہ ان کے غلام بن کر رہیں؟ مقوقس نے کہا: ہاں! غلام رہو گے لیکن اپنے ملک کے مالک رہو گے، تمہاری جان ومال اور آل واولاد کو حفاظت حاصل ہوگی اور یہ غلامی اس سے بہتر ہے کہ تمہارا ایک ایک آدمی مارا جائے یا تمہیں اس طرح غلام بنا لیا جائے کہ تم اور تمہارے اہل وعیال اپنے وطن میں نشانہ ستم بن جائیں اور مسلمان بھیڑ بکریوں کی طرح تمہیں بیچتے اور خریدتے رہیں۔ انہوں نے کہا: اس سے بہتر موت ہے۔ اور پھر فسطاط اور جزیرہ کو ملانے والے پل کو توڑنے کا حکم دیا اور قلعہ کی طرف لوٹ گئے جہاں بہت سارے قبطی اور رومی موجود تھے۔ مقوقس اور عبادہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والی اس گفتگو میں عبادہ رضی اللہ عنہ کی ذکاوت و دانائی اور اپنے حریف کے مقصد کو بھانپ لینے کی صلاحیت واضح ہوتی ہے، چنانچہ بات چیت کے نتائج پر اثر انداز ہونے اور اپنی دھونس جمانے کے لیے مقوقس کے اسلوب گفتگو سے قطعاً متاثر نہ ہوئے، بلکہ ترکی بہ ترکی اس کا جواب دیتے رہے، اپنے خیالات اور مقاصد کو صاف صاف پیش کرتے رہے، اس کی باتوں میں الجھ کر اسلام کی دعوت دینے سے غافل نہ ہوئے، اسلام کی طرف رغبت دلاتے رہے اور دیگر اقوام اور ادیان ومذاہب پر اسلام اور مسلمانوں کی فتح کا چرچا کرتے رہے۔ ان تمام باتوں کا مقوقس کے دل پر بہت اچھا اثر ہوا اور اسی وجہ سے اس نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کر لینے کو پسند کیا۔[1] فتوحات مصر میں جنگی فنون: جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مصر فتح کیا تو دوران جنگ مختلف جنگی فنون استعمال کیے، ان میں سے چند ایک کا بیان یہاں ہو رہا ہے: ۱: نفسیاتی جنگ: قلعہ بابلیون کے محاصرہ کے وقت مقوقس نے عورتوں کو بابلیون کی فصیلوں کی حفاظت پر اس طرح لگایا تھا کہ ان کے چہرے شہر اور پیٹھیں مسلمانوں کی طرف تھیں اور مردوں کو مسلح کر کے ان کا رخ مسلمانوں کی طرف