کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 771
حاصل ہوں گے اور وہ ہمارا دینی بھائی ہوگا، لہٰذا اگر تم اور تمہارے ساتھی بھی اسے قبول کر لیں تو دنیا وآخرت کی سعادتوں سے بہرہ مند ہو جائیں گے اور ہم تم سے جنگ نہیں لڑیں گے، تمہیں تکلیف دینا حلال نہیں سمجھیں گے اور نہ تم سے کوئی چھیڑ چھاڑ کریں گے۔ اور اگر جزیہ دینا منظور ہے تو ہمارے زیردست بن کر ہمیں جزیہ دو، ہمارا آپس میں ہماری اور تمہاری پسند کا اور جب تک ہم اور تم باقی ہیں ہر سال دینا ہوگا اور اگر کوئی تمہیں زک پہنچانا چاہے گا، تمہاری زمین غصب کرنا چاہے گا، تمہارے قتل کے درپے ہوگا یا مال لوٹنا چاہے گا تو ہم تمہاری طرف سے دفاع کریں گے۔ جب تک تم ہمارے ذمہ میں ہو ہم اسے پورا پورا نبھائیں گے۔ تمہارے لیے ہم پر یہی اللہ کا حکم نازل ہوا ہے اور اگر تم جزیہ دینا بھی نامنظور کرتے ہو تو ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی۔ یہاں تک کہ ہم سب مر جائیں، یا تم پر غالب ہو جائیں۔ ہمارا وہ دین ہے جسے اللہ کے لیے مانتے ہیں، ہمارے اور اس کے مابین جو عہد ہے اس کی بنیاد پر اس کے سوا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ تم اپنے بارے میں اچھی طرح غور کر لو۔ مقوقس نے کہا: یہ ایسا مطالبہ ہے جو ہرگز منظور نہیں، کیا تم زندگی بھر ہمیں اپنا غلام بنانا چاہتے ہو؟ عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسے ہی ہے، تم کسی ایک کو اختیار کر لو۔ مقوقس نے کہا: کیا ان تینوں شرائط کے علاوہ کوئی اور شرط نہیں ہے جو ہمارے لیے قابل قبول ہو؟ عبادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیے اور کہا: نہیں! آسمان وزمین اور پوری کائنات کے رب کی قسم ہے! ہمارے پاس تمہارے لیے ان تینوں کے علاوہ کوئی چوتھی شرط نہیں ہے، تم اپنے لیے جو چاہو اختیار کرو۔ یہ سب کچھ سننے کے بعد مقوقس اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: وہ اپنی بات کہہ چکا، تمہارا خیال کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: کیا کوئی اس ذلت سے راضی ہو سکتا ہے؟ ان کا جو یہ کہنا ہے کہ ہم ان کا دین قبول کر لیں سو ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، ہم مسیح بن مریم کے دین کو چھوڑ کر وہ دین ہرگز نہیں قبول کریں گے جسے ہم جانتے ہی نہیں اور وہ لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ ہم کو ہمیشہ غلام بنا کر رکھیں، سو مرجانا اس سے بہتر ہے، ہاں جس رقم کی پیشکش ہم نے بار بار کی ہے اگر اس کا دو گنا بھی دینا پڑے تو یہ ہمیں منظور ہے۔ مقوقس نے عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میری قوم نے تمہاری بات کا انکار کر دیا، اب تمہارا کیا خیال ہے؟ اپنے امیر کے پاس جاؤ اور بتا دو کہ اس مرتبہ جتنا تمہارا مطالبہ ہو اتنا ہم دینے کو تیار ہیں، لوٹ جاؤ۔ عبادہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی اٹھے اور وہاں سے واپس ہوگئے۔ مقوقس نے اپنے قریب بیٹھنے والوں سے کہا: تم لوگ میری بات مان لو اور مسلمانوں کی تینوں شرائط میں سے کوئی ایک منظور کر لو۔ اللہ کی قسم! تم سب ان سے مقابلہ نہیں کر سکو گے، اور اگر اسے بخوشی ماننے کو تیار نہیں ہو تو یقینا بہت جلد اس سے بھی بڑی چیز مجبوراً ماننا ہوگی۔