کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 77
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللّٰهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (67) لَوْلَا كِتَابٌ مِنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (68) (الانفال: ۶۷۔۶۸) ’’پیغمبر کو نہیں چائیے کہ اس کے پاس قید ی رہیں جب تک ملک میں (کافروں کو) خوب قتل نہ کرے تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ (تم کو) آخرت (کا ثواب دینا ) چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے حکم والا۔اگر اللہ تعالیٰ آگے سے ایک بات نہ لکھ چکا ہوتا توتم نے جو (مال قیدیوں سے) لیا اس (قصور ) میں تم پر بڑا عذاب اترتا۔‘‘ پھر آئندہ سال اُحد میں ان مسلمانوں میں سے ستر شہید ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے میدان چھوڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رباعی دانت ٹوٹ گئے، خود آپ کے سر میں دھنس گئی، آپ کے چہرہ سے خون بہتا رہااور اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللّٰهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آلِ عمران: ۱۶۵) [1] ’’(کیا بات ہے) کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دوگنی پہنچا چکے تو یہ کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی؟ آپ کہہ دیجیے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ (۴) استئذان (اجازت طلبي) کے بارے میں موافقت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری بچے کو دوپہر کے وقت عمر بن خطاب کو بلانے کے لیے بھیجا، وہ آپ کے پاس آیا، آپ سو رہے تھے اور جسم کا کچھ حصہ بے پردہ تھا۔ تو آپ نے دعا کی: ((اَللّٰہُمَّ حَرِّمِ الدُّخُوْلَ عَلَیْنَا فِیْ وَقْتِ نَوْمِنَا۔)) ’’اے اللہ! ہمارے سونے کے وقت میں کسی کی آمد کو حرام کردے۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ اجازت طلبی کے بارے میں امر ونہی کے احکامات نازل فرما دیں۔ [2] پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ
[1] صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۴۰۰۔ اخبار عمر، الطنطاویات، ص: ۳۸۰۔ ۳۸۱