کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 762
امدادی فوج کی آمد کی اطلاع مل گئی، اس لیے وہاں سے فرار اختیار کی،[1] وہاں سے چھ میل کی دوری پر سُلطیس کے پاس جو دمنہور کے جنوب میں واقع ہے، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور رومیوں کی فوج میں سخت لڑائی ہوئی۔ اس میں رومیوں نے شکست اٹھائی اور پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔[2] ان فتوحات کا تذکرہ کرتے ہوئے ہمیں مؤرخین پر حیرت ہوتی ہے اور افسوس کرنا پڑتا ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر معرکے جن میں مسلمانوں نے اپنی مختصر سی فوجی قوت لے کر بڑی بڑی رومی افواج پر حملہ کیا جو تعداد اور اسلحہ ہر اعتبار سے مضبوط اور مسلمانوں پر بھاری تھے اور وہ معرکے جو کئی کئی دنوں تک جاری رہے، مسلم مؤرخین نے انہیں چند سطروں یا چند حروف میں سمیٹ دیا ہے۔ جب کہ ان میں سے بعض نے قادسیہ، یرموک یا نہاوند کی تاریخ لکھتے ہوئے دسیوں صفحات سیاہ کر ڈالے ہیں۔[3] انہی بڑے معرکوں میں سے ایک اہم معرکہ جس کو ہمارے مؤرخین نے نظر انداز کر دیا ہے اور جس کے بارے میں عربی تاریخی مصادر ایک پیاسے کو سیراب کرنے سے قاصر ہیں معرکہ ’’کریون‘‘ ہے۔ یہ بابلیون سے اسکندریہ تک پھیلے ہوئے قلعوں کی آخری کڑی تھی، رومی فوج کا کمانڈر تیودرو اس قلعہ میں پناہ گزین ہوگیا، اس میں مجاہدین اسلام اور اس کی فوج کے درمیان دس دنوں سے زیادہ لڑائی ہوئی، یہ معرکہ بھی معمولی نہ تھا لیکن ابن عبدالحکم کے ان چند کلمات کے علاوہ کسی نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ وہ لکھتے ہیں: پھر کریون میں لڑے، دس دنوں سے زیادہ لڑائی چلتی رہی۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما مقدمۃ الجیش پر تھے اور عمرو رضی اللہ عنہ کے غلام ’’وردان‘‘ جنگ کا علم اٹھائے تھے۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے اس دن نماز خوف ادا کی، پھر اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی۔ اس معرکہ میں مجاہدین اسلام نے بہت سے رومی سپاہیوں کو قتل کیا اور پیچھے دھکیلتے ہوئے انہیں اسکندریہ تک پہنچا دیا۔ جنگ کا نقشہ کھینچتے ہوئے ابن عبدالحکم نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اور ان کے والد کے غلام وردان کی بہادری کا واقعہ بھی درج کیا ہے۔[4] جس وقت مسلمانوں نے اسکندریہ پر فتح کا پرچم لہرایا اس وقت اسے دارالحکومت کی حیثیت حاصل تھی اور قسطنطنیہ کے بعد بارنطینی رومی بادشاہت کا دوسرا بڑا شہر مانا جاتا تھا، نیز دنیا کا سب سے پہلا تجارتی شہر تھا، بارنطینی یہ بات اچھی طرح جان چکے تھے کہ اگر اس شہر پر مسلمانوں کا غلبہ ہوگیا تو اس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔ یہی غم انہیں کھائے جا رہا تھا حتیٰ کہ پریشانی کے عالم میں ہرقل نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اسکندریہ پر عرب غالب ہوگئے تو رومی بادشاہت کا سقوط اور اس کی ہلاکت یقینی ہے۔ [5]بعض مؤرخین کا خیال
[1] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۲۴۔ [2] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۲۴۔ [3] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۲۵۔ [4] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۲۵۔