کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 761
اسکندریہ کی طرف لشکر کشی کی اجازت بھی مل جائے گی۔ چنانچہ جب دارالخلافہ سے اجازت مل گئی تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کا ایک مسلح و بہادر فوجی دستہ قلعہ میں چھوڑا اور مئی ۶۴۱ء موافق جمادی الاخری ۲۱ہجری میں اپنی قیادت میں مسلمانوں کا لشکر لے کر بابلیون سے نکلے۔ آپ کے ساتھ قبطی سرداروں کی وہ جماعت بھی تھی جسے اس بات پر اطمینان حاصل تھا کہ کامیاب اسلامی فوج کی مدد کرنے ہی میں ہماری بھلائی پوشیدہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسلامی فوج کے لیے راستے ہموار کیے، پل بنائے، بازار قائم کیے اور رومیوں سے مسلمانوں کی محاذ آرائی کے وقت مسلمانوں کے معاون ومددگار ثابت ہوئے۔[1] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ پر جنگی پیش قدمی کے لیے دریائے نیل کے (بائیں) شمالی ساحل سے گزرنے کو ترجیح دی، تاکہ گھوڑوں اور فوج کو پیش روی کے لیے صحرا کا وسیع علاقہ مل سکے اور دریائے نیل کے ڈیلٹا سے گزرنے کی صورت میں کثیر تعداد میں جوگہری نہریں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں ان سے بچ سکیں- اس کارروائی میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ صرف مرفوط، یا عرب مؤرخین کے مطابق ’’طرانہ‘‘ میں معمولی مزاحمت ہوئی۔[2]اس کے بعد دریائے نیل عبور کر کے اس کے مشرقی ساحل پر آگئے، جہاں ’’نقیوش‘‘ نام کا محفوظ ومضبوط شہر آباد تھا۔[3]اس کے قلعے مضبوط اور فصیلیں مستحکم تھیں، عمرو رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ اگر اسے نظر انداز کر کے آگے گزر جاتے ہیں تو یہاں خطرہ باقی رہے گا۔ رومیوں نے اپنے قلعوں میں پناہ لینے کے بجائے انہیں خالی چھوڑ دیا اور آگے بڑھ کر کشتیوں میں سوار ہوگئے، تاکہ وہیں سے مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑیں اور اپنے شہر کے قریب نہ آنے دیں، لیکن یہ چیز مجاہدین اسلام کے حق میں مفید ثابت ہوئی، انہوں نے اپنے تیروں اور برچھیوں سے رومیوں کو چھلنی کرنا شروع کر دیا اور دریا ہی میں انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ وہ لوگ اپنی کشتیوں پر سوار ہو کر اسکندریہ کی طرف پیٹھ پھیر کر بھاگے اور جو رومی قلعوں میں بچ گئے تھے، انہوں نے بہت جلد اطاعت قبول کر لی اور پھر مسلمان فتح مند ہو کر شہر میں داخل ہوگئے۔ وہاں چند دن گزار کر اپنے اردگرد کے دشمنوں پر شکنجہ کستے اور مصالحت کرتے رہے۔[4]عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک قائد شریک بن سمی رضی اللہ عنہ کو بھگوڑے رومیوں کا تعاقب کرنے کے لیے بھیجا، آپ نے اپنے ساتھ چھوٹا سا فوجی دستہ لے کر ان کا تعاقب کیا اور انہیں پا لیا۔ رومیوں نے دیکھا کہ یہ تھوڑے سے لوگ ہیں کیوں نہ انہیں گھیر کر ان کا کام تمام کر دیا جائے۔ شاید یہ سوچ ہی رہے تھے کہ شریک کی ایک ٹیلے کے پاس ان سے جھڑپ ہوگئی۔ بعد میں اس ٹیلے کی نسبت شریک کی طرف کی جانے لگی اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیج کر مزید امدادی فوج کا مطالبہ کیا۔ کسی طرح رومیوں کو
[1] الفتوحات الإسلامیۃ، د/ عبدالعزیز الشناوی، ص: ۹۱ [2] الفتوحات الإسلامیۃ، د/ عبدالعزیز الشناوی، ص: ۹۱۔