کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 760
۴: معرکہ قلعہ بابلیون: ام دنین فتح کرنے کے بعد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنی فوج کے ساتھ قلعہ بابلیون کی طرف بڑھے اور اس کا زبردست محاصرہ کیا، یہ محاصرہ مسلسل سات مہینے جاری رہا۔ اس دوران میں مقوقس اپنے سفیروں کو مصالحت کی غرض سے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجتا رہا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مصالحت قبول کرنے کے لیے یہ شرط لگائی کہ اسلام لاؤ، جزیہ دو، یا پھر جنگ ہوگی۔ مقوقس نے جزیہ دینا منظور کر لیا اور اس سلسلہ میں ہرقل سے اجازت مانگی، لیکن ہرقل نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور مقوقس پر بہت غصے ہوا اسے کافی لعنت ملامت کی، اسے قسطنطنیہ طلب کیا اور پھر وہاں سے جلا وطن کر دیا اور جب قلعہ بابلیون کی فتح میں زیادہ تاخیر نظر آئی تو زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اب میں اپنی جان اللہ کے راستہ میں ہبہ کرنے جا رہا ہوں، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی سے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا۔[1] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ قلعہ بابلیون کا محاصرہ برقرار رکھے ہوئے تھے۔ ایک رات مجاہدین اسلام نے دیواروں سے قلعہ کے اندر چھلانگ لگا دی اور اندر گھس کر رومی فوج کے ساتھ گتھم گتھا ہو گئے۔ قلعہ کے اندر سب سے پہلے چھلانگ لگانے والے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے سوق حمام کی طرف سے دیوار پر سیڑھی لگائی اور اوپر چڑھ گئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جب مجھے اوپر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے سننا تو قلعہ میں داخل ہونے کے لیے دوڑ پڑنا۔ اچانک لوگوں نے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو تلوار کے ساتھ قلعہ کے اوپر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے بلند آواز میں نعرۂ تکبیر پکارا اور قلعہ کے باہر تمام مسلمانوں نے بھی نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ فضا میں گونجتے ہوئے نعرۂ تکبیر کو سننا تھا کہ رومیوں کو یقین ہوگیا کہ مسلمان قلعہ کے اندر داخل ہو چکے ہیں، اس غلط فہمی میں وہ قلعہ چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کو لے کر قلعہ بابلیون کے دروازے پر جا پہنچے، اس کا دروازہ کھول دیا، سب اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے اور لڑتے لڑتے قلعہ بابلیون کو فتح کر لیا، لیکن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے انہیں اس شرط پر امان دے دی کہ رومی فوج اپنے ساتھ چند دنوں کی خوراک لے کر یہاں سے نکل جائے اور قلعہ بابلیون میں جو ذخیرہ اور جنگی اسلحہ ہے انہیں ہاتھ نہ لگائیں، کیونکہ وہ مسلمانوں کے اموال غنیمت ہیں۔ اس کے بعد ابوعبداللہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے قلعہ بابلیون کے گنبدوں اور بلند ومستحکم دیواروں کو توڑ دیا۔[2] فتح اسکندریہ: عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھ فوجی قائدین ومجاہدین قلعہ بابلیون میں چند مہینے قیام فرما رہے تاکہ بھاری تعداد میں فوج ادھر ادھر سے آکر یہاں جمع ہو جائے اور تب تک امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے
[1] فتح مصر، صبحی ندا، ص:۲۴۔ [2] فتح مصر، صبحی ندا، ص:۲۴۔ [3] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۱۸۔ [4] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۱۹۔