کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 752
’’رہا‘‘ جا کر وہاں سے دشمنوں کو نکال دیں، ایک تیسری فوج ولید بن عقبہ کی کمان میں جزیرہ کے (عیسائی) عرب قبائل ربیعہ اور تنوخ کی جانب روانہ کرو اور عیاض بن غنم کو اسی (جزیرہ کے) محاذ پر بھیجو۔ اگر جنگ ہو تو دوسرے سالاران فوج عیاض کے ماتحت ہوں گے۔‘‘ چنانچہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پلاننگ کے مطابق قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ چار ہزار شہ سواروں کو لے کر حمص روانہ ہوئے، عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ اور دوسرے سالاران لشکر بھی اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ ادھر امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے ساتھ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے لیے امدادی فوج لے کر حمص کی طرف چل پڑے اور جابیہ میں فروکش ہوئے۔ اہل جزیرہ جنہوں نے حمص کا محاصرہ کرنے میں رومیوں کا ساتھ دیا تھا، انہیں عراق سے اسلامی فوج کی آمد کی اطلاع ہوگئی لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ فوج ہمارے شہر جزیرہ پر حملہ کرے گی یا حمص پر، اس لیے وہ اپنے شہر اور اپنے بھائیوں کی حفاظت میں لگ گئے اور رومیوں کا ساتھ چھوڑ دیا۔ جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اہل جزیرہ نے رومیوں کی مدد سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے تو ان سے معرکہ آرائی کے لیے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا، خالد رضی اللہ عنہ نے ان کی تائید کی، پھر مسلمانوں نے رومیوں پر زبردست حملہ کیا، لڑائی ہوئی اور مسلمان فتح یاب ہوئے اور جب قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کوفہ کی فوج کے ساتھ حمص پہنچے، تو لڑائی ختم ہوئے تین دن گزر چکے تھے۔ دوسری طرف امیرالمومنین بھی جابیہ پہنچ چکے تھے۔ حمص سے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین کے نام خط لکھا کہ ’’معرکہ فتح ہو چکا ہے اور جنگ ختم ہونے کے تین دن بعد کوفہ کی امدادی فوج بھی ہمارے پاس آچکی ہے، آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔‘‘ آپ نے جواب میں لکھا کہ انہیں اپنے ساتھ مال غنیمت میں شریک کر لو، وہ تمہاری مدد کے لیے آئے ہیں اور دشمن انہی کی آمد سے خائف ہو کر منتشر ہوگئے ہیں۔[1] پھر کہا: اللہ تعالیٰ کوفہ والوں کو بہتر بدلہ عطا فرمائے، وہ اپنے وطن اور سرحدوں کے لیے کافی ہوتے ہیں اور دوسرے ملک والوں کی بھی مدد کرتے ہیں۔[2] اس موقع پر دشمن کو الجھن میں ڈالنے اور منتشر کرنے کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کے انوکھے جنگی نقشہ اور فوجی تدبیر پر جب ہم غور کرتے ہیں تو آپ کی مثالی جنگی مہارت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک طرف آپ نے مسلمانوں کو دشمن کے نرغہ سے نکالنے کے لیے ایک تیز رو فوج کوفہ سے حمص کی طرف روانہ کی اور دوسری طرف آپ خود امدادی فوج لے کر مدینہ سے نکلے، دفاعی کوشش کے لیے یہ اقدام تو ہونا ہی تھا لیکن جو چیز حیرت و تعجب کی ہے وہ یہ کہ آپ نے مختلف افواج کو جنگی شہ دینے والے شہروں پر چڑھائی کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جائیں اور اپنے اپنے شہروں کی حفاظت میں لگ جائیں، اسی طرح ہوا بھی، چنانچہ وہ سب ادھر ادھر منتشر ہوگئے اور مسلمانوں نے آسانی سے رومیوں پر فتح پا لی۔[3]
[1] الطریق إلی الشام، ص: ۴۱۱۔ تاریخ الطبری: ۴/۲۳،۲۵۔