کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 750
کی صفائی کر کے یہود کے لیے بھی بے مثال رواداری اور صخرہ کے احترام و تقدس کا ثبوت دیا، جب کہ یہودیوں نے اپنی تاریخ میں مسلمانوں کے خلاف بے شمار ناقابل معافی جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔[1] حمص پر قابض ہونے کے لیے رومیوں کی دوبارہ کوشش: ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو ان کے مخبروں نے خبر دی کہ رومی دوبارہ اکٹھا ہو رہے ہیں، ہرقل نے انہیں خطاب کیا ہے اور فوجی کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس خبر کو پوشیدہ رکھنا مناسب نہ سمجھا اور بصیرت مند، اہل تقویٰ اور دور اندیش مسلم شخصیتوں کو باہمی صلاح ومشورہ کے لیے بلایا۔[2]معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ حمص سے انخلا نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا: تم لوگ وہ سرزمین جس پر اللہ تعالیٰ نے تمہیں فتح عطا فرمائی، دشمن کے سورما اور سردار اس میں قتل ہوئے اور ان کا لشکر تباہ و برباد ہوا اس سے انخلا نہیں کرنا چاہیے، دشمن کو اس سے بہتر اور کیا چاہیے؟ اللہ کی قسم وہاں سے نکل آنے کے بعد اگر دوبارہ تم وہاں جانا چاہتے ہو تو ضرور بالضرور مشکلات میں پھنس جاؤ گے۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یقینا یہ سچ کہہ رہے ہیں اور مخلص ہیں۔[3] لیکن بعد کے حالات نے رخ موڑ دیا مسلمانوں نے حمص والوں سے جو کچھ لیا تھا، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حبیب بن مسلمہ کو حکم دیا کہ اسے انہیں واپس کر دیں، آپ نے کہا: حمص والوں سے مصالحت کی بنیاد پر ہم جو کچھ (جزیہ وخراج) ان سے لیتے تھے اسے انہیں واپس کر دو۔ اب جب ہم ان کی طرف سے دفاع نہیں کر سکیں گے تو کچھ لینے کا بھی حق نہیں ہے اور حمص والوں سے کہا: ہم آپسی صلح کے مطابق اپنے وعدے پر قائم ہیں، ہم اس کے خلاف اس وقت تک قدم نہیں اٹھائیں گے جب تک کہ تم قدم نہ اٹھاؤ اور اب جو تمہارا مال ہم تمہیں واپس کر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم تم سے مال وصول کرتے رہیں اور تمہارے شہروں کی حفاظت نہ کر سکیں، یہ ہمارے نزدیک معیوب ہے۔ البتہ ہم ایک علاقے میں سمٹ کر اپنے ساتھیوں کو بلاتے ہیں، جب وہ آجائیں گے تو انہیں لے کر اپنے دشمن سے لڑیں گے، اگر لڑائی میں اللہ نے ہمیں کامیاب کیا تو ہم تم سے اپنا وعدہ پورا کریں گے مگر یہ کہ تم انکار کر دو۔ جب صبح ہوئی تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو دمشق کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا اور حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان تمام لوگوں کو بلایا جن سے جزیہ وصول کیا جاتا تھا، انہیں ان کا مال واپس کیا اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ سے انہیں آگاہ کیا، حمص والے کہنے لگے: اللہ تم لوگوں کو دوبارہ ہمارے پاس واپس لائے، ہمارے سابق رومی فرماں رواؤں پر اللہ کی لعنت ہو، آج اگر تمہاری جگہ وہ لوگ ہوتے تو ہمیں کچھ بھی نہ واپس کرتے بلکہ سب کچھ ہڑپ لیتے اور جتنا بس چلتا ہمارا حق چھین لیتے۔ رومی فرماں رواؤں کے جس ظلم وطغیان کے سائے میں ہم زندگی گزارتے تھے، تمہاری حکومت وانصاف ہمیں اس سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔[4]
[1] جولۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، محمد سید الوکیل، ص:۲۰۰،۲۰۱۔ [2] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۵۷۔ [3] مجموعۃ الرسائل الکبرٰی : ۶/۵۷،۵۸۔