کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 749
کی رونق، رواداری اور عدل وانصاف کو دیکھ لیں اور دور رہنے کی وجہ سے اسلام کی جو خوبیاں اور حقائق ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں وہ سب جان لیں اور پھر فطرت کی دعوت سے متاثر ہو کر یقینا اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوں گے جیسا کہ مسلمانوں کے تمام مفتوحہ شہروں میں یہ چیز واقع ہوئی اور مسلمانوں نے نہایت کشادہ دلی سے انہیں امان دی۔[1] ي: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کا مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنا: سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کعب سے فرمایا: میں کہاں نماز پڑھوں، تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا: اگر آپ میری بات مانیں تو صخرہ کے پیچھے پڑھیں تاکہ پورا قدس آپ کے سامنے رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لگتا ہے تمہارے دل میں یہودیت کے لیے نرم گوشہ ہے، میں وہاں نماز پڑھوں گا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی، پھر آپ قبلہ کی طرف آگے بڑھے اور نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہو کر صخرہ کے پاس آئے، اپنی چادر بچھائی اور صخرہ کو جھاڑ پونچھ کر صاف کیا، لوگوں نے بھی اسے صاف کیا۔[2] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: پوری مسجد کا نام مسجد اقصیٰ ہے، بعض لوگ صرف اس حصہ کو اقصیٰ کہتے ہیں جسے آگے بڑھ کر عمر فاروق نے تعمیر کیا تھا۔ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جس حصہ کو عمر رضی اللہ عنہ نے تعمیر کیا تھا، مسجد کی دوسری جگہوں کے بالمقابل وہاں نماز پڑھنا افضل ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جس وقت بیت المقدس فتح کیا تھا اس وقت صخرہ پر بہت زیادہ گرد و غبار پڑا ہوا تھا، اس لیے کہ نصاریٰ اسے توہین کی نگاہ سے دیکھتے تھے، جب کہ یہودیوں کے نزدیک وہ سب سے محترم پتھر تھا اور وہ اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ آپ نے گردوغبار اور آلودگیوں سے اسے صاف کیا اور کہا: اے کعب! تمہاری رائے میں مسلمانوں کے لیے مسجد کہاں بناؤں؟ انہوں نے کہا: صخرہ کے پیچھے۔ آپ نے فرمایا: اے یہودی کی اولاد، تو نے یہودیت کو جوڑ دیا، بلکہ اسے صخرہ کے آگے بناؤ، ہمارے لیے مسجدوں کے اگلے حصے ہوا کرتے ہیں۔[3] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے بے شمار یادگار و بے مثال مواقف میں سے ایک اہم موقف یہاں بھی نمایاں ہے۔ آپ نے عملاً یہ ثابت کر دیا کہ اسلام تمام ادیان سماویہ کا احترام کرتا ہے اور تمام مقدس مقامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ صخرہ نامی جس پتھر سے عمر رضی اللہ عنہ نے گردوغبار اور غلاظتوں کو صاف کیا تھا اور اسے اپنی چادر میں بھر کر باہر پھینکا تھا یہ یہودیوں کا قبلہ تھا اور ان کے نزدیک معظم ومحترم تھا، کیونکہ ان کے عقیدہ کے مطابق اسی پتھر پر یعقوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے تھے، پس جس طرح نصاریٰ کے لیے آپ کا موقف مثالی اور قابل احترام تھا کہ آپ نے انہیں عقیدہ کی آزادی دی، ان کی صلیبوں اور گرجاؤں کا تقدس باقی رکھا، اسی طرح صخرہ
[1] سیر أعلام النبلاء: ۱/۱۷۔ [2] سیر أعلام النبلاء: ۱/۱۷۔ [3] محض الصواب: ۲/ ۶۸۹، ۵۹۰۔ عروہ تک سند صحیح ہے۔