کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 740
اور عروہ بن مہلل بن یزیدرضی اللہ عنہم شامل تھے۔ ان ساتوں قائدوں کو سات دنوں میں بھیجا، ہر روز ایک قائد اپنی فوج لے کر روانہ ہوتا اور جب اسلامی فوج اور شہر مقدس کے محافظ دستوں کے درمیان کئی دنوں میں اچھی طرح جنگ چھڑ گئی تو آخر میں آپ بھی ان سے جا ملے۔[1] واقدی آگے لکھتا ہے کہ باشندگان ایلیا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور مصالحت کے ذریعہ سے شہر میں داخل ہونے کی درخواست کرنے لگے، بشرطیکہ مصالحت امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے عمل میں آئے، پھر طبری اور ابن اثیر کے موافق روایات نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھ کر واقعہ کی تفصیل بتائی اور اس کے بعد خلیفہ راشد بیت المقدس کی طرف چل پڑے اور شہر کی فصیل کے پاس آکر اترے۔ پھر بیت المقدس کا بطریق آپ کے پاس آیا، اپنا تعارف پیش کیا اور کہا: اللہ کی قسم! یہ وہی شخص ہے جس کے (فاتح قدس) ہونے کی صفت ہم اپنی کتابوں میں پاتے ہیں۔ یہی ہمارے ملک کا فاتح ہوگا۔[2] عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرنے کے بعد وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور اسے حقیقت حال سے خبردار کیا، تمام لوگ خوشی خوشی عمر رضی اللہ عنہ کی اطاعت کے لیے دوڑ پڑے اور چونکہ طویل محاصرہ نے ان کی زندگی اجیرن کر دی تھی اس لیے فصیل کے تمام دروازے کھول دیے اور سب لوگ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر آپ سے عہد ومیثاق اور ذمہ کے طالب ہوئے اور جزیہ دینے کا اقرار کیا۔ لیکن ہم واقدی کی اس روایت کو بعید از قیاس سمجھتے ہیں، کیونکہ ہمیں یقینی طور سے معلوم ہے کہ جس وقت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیت المقدس کا محاصرہ کیے ہوئے تھے آپ کے دوسرے ساتھی یرموک، دمشق اور فحل کے مسلم قائدین بلاد شام کے مختلف علاقوں کو فتح کرنے میں تھے، چنانچہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حمص، حماۃ، قنسرین اور حلب کو فتح کر کے شامی ساحل کے راستے جنوب میں انطاکیہ، لاذقیہ اور عرقہ کو فتح کیا اور یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے جنوب میں بیروت سے صیدا تک اور شمال میں عسقلان سے صور تک فتح کا پرچم لہرایا۔[3] اور بلاذری اپنی ایک روایت میں کہتے ہیں کہ ’’رفح‘‘ فتح کرنے کے بعد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ہی نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ قنسرین اور اس کے مضافاتی علاقوں کو فتح کرنے کے بعد ۱۶ ہجری میں وہاں اس وقت پہنچے جب کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیت المقدس کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔[4] ایلیا والوں نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے شام کے دیگر صلح کردہ شہروں کی طرح صلح اور امان کی درخواست کی اور یہ بھی کہا کہ معاہدہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
[1] تاریخ الطبری ۴/۴۳۳۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/۴۳۳۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/۴۳۳۔ [4] حروب القدس فی التاریخ الإسلامی والعربی/ د: یاسین سوید ص:۴۰۔