کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 737
سے بیت المقدس فتح کرتے وقت مسلمان گزرے۔ ۱: مشاغلہ (الجھانا): خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی منصوبہ سازی یہ تھی کہ رومی فوج کو فلسطین میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے محاذآرا ہونے سے اس وقت تک روکا جائے جب تک کہ اجنادین میں رومی فوج پر مسلمانوں کا غلبہ نہ ہو جائے۔ تاکہ یہاں سے مکمل طور پر نمٹنے کے بعد بیت المقدس اور بقیہ بلاد شام پر اپنی توجہ مرکوز کی جائے۔ چنانچہ اسی منصوبہ بندی کے مطابق عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اپنے ساتھ شہ سوار مجاہدین کا قافلہ لے کر قیساریہ چلے جائیں اور وہاں کے رومی محافظ دستوں کو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھنے سے الجھائے رکھیں۔ ادھر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بالکل وہی منصوبہ تھا جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا تھا، اس لیے آپ نے کارروائی آگے بڑھاتے ہوئے علقمہ بن حکیم الفراشی اور مسروق بن فلان المکی کو ایلیا میں روم کے محافظ دستے کو الجھانے والی فوج کا امیر بنا کر روانہ کیا، وہ لوگ ایلیا (بیت المقدس) گئے اور اپنے کام میں لگ گئے۔[1] پھر ابو ایوب المالکی کو ’’رملہ‘‘ میں روم کے محافظ دستوں کو الجھانے والی فوج کا امیر بنا کر بھیجا، اور ابھی عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس خارجی امدادا پہنچ بھی نہ سکی تھی کہ آپ نے تیاری کو مزید مستحکم کرتے ہوئے محمد بن عمرو کو ان کی فوج کے ساتھ ایلیا کے محاذ پر ڈٹے ہوئے مجاہدین اسلام کی مدد کے لیے روانہ کیا۔ اسی طرح عمارہ بن عمرو بن امیہ ضمری کو ان کی فوج کے ساتھ ’’رملہ‘‘ کے محاذ پر ڈٹے ہوئے مجاہدین اسلام کی مدد کے لیے بھیجا اور آپ خود اجنادین میں قیام کر کے ارطبون کے ساتھ قطعی جنگ کا انتظار کرنے لگے۔ اس دوران میں ایلیا کے محافظ دستے اپنی فصیل سے مسلمانوں سے زبردست مورچہ لیے ہوئے تھے اور شہر مقدس کے اردگرد جنگ کی رفتار زور پکڑ رہی تھی۔ جب کہ ٹھیک اسی وقت رومی اور اسلامی افواج اجنادین میں جنگ کے لیے مکمل طور پر مسلح ہو رہی تھیں اور اس کے بعد اجنادین میں جو جنگ ہوئی وہ خون ریز جنگ تھی۔[2] طبری کا بیان ہے کہ مسلمانوں اور رومیوں نے اجنادین میں جنگ یرموک کی طرح بڑی بے جگری سے لڑائی لڑی اور دونوں طرف سے بہت لاشیں گریں۔[3] عرب کے ارطبون نے روم کے ارطبون سے آمنے سامنے کی ٹکر لی اور اسے شکست دی، روم کا ارطبون اپنی فوج کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا، تاکہ شہر مقدس کی فصیل کو پشت پناہ بنایا جا سکے۔ مسلمانوں نے بھی حکمت عملی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے لیے راستہ صاف کر دیا اور وہ شہر مقدس کے اندر چلا گیا۔[4] طبری کی روایت ہے کہ ارطبون کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد علقمہ، مسروق، محمد بن عمرو اور ابو ایوب جو
[1] دراسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ، ص: ۳۵۵۔ [2] ترتیب و تہذیب البدایۃ والنہایۃ ، ص: ۶۳، ۶۴۔ [3] حروب القدس فی التاریخ الإسلامی والعربی، د/ یاسین وسوید، ص:۳۵۔ [4] تاریخ الطبری: ۴/۴۳۱۔ [5] حروب القدس فی التاریخ الإسلامی والعربی، ص: ۳۵۔ [6] حروب القدس فی التاریخ الإسلامی والعربی، ص: ۳۵، ۳۶۔ [7] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۳۲۔