کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 722
ہے کہ اس سے متعلق میرے اور کسی مسلمان کے درمیان کوئی رواداری نہیں۔ تمہاری درستی مجھے محبوب اور بے راہ روی باعث تکلیف ہے۔ میں اپنی امانت اور فرائض کا ذمہ دار ہوں۔ جو چیز میرے لیے ضرر رساں ہے ان شاء اللہ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں، اسے کسی دوسرے کو نہیں سونپتا۔ اس سلسلہ میں امانت دار اور امت کے بہی خواہ لوگوں کی ضرورت ہے ایسے ہی لوگوں کو منتخب کرتا ہوں اور انہی کو ذمہ داریاں دیتا ہوں اور ان شاء اللہ کبھی ان کے علاوہ دوسروں کو اپنا مشیر و ذمہ دار نہ بناؤں گا۔ رہی دنیا کی حکومت و سلطنت، تو سچ ہے کہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو وہ بالآخر فنا ہو جائے گا اور ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہم میں سے کوئی کسی پر حاکم یا امیر بنے اس سے ایک دوسرے کے دین و دنیا کا کچھ نقصان ہونے والا نہیں ہے بلکہ حاکم ہی دین ودنیا میں فتنہ کے زیادہ قریب اور ہلاکت میں واقع ہوتا ہے۔ سوائے ان حکام کے جن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے بچا لے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔‘‘[1] فتح دمشق صدیقی دور خلافت کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کے محاذ پر جو کچھ فوجی کارروائیاں ہوئیں وہیں سے بلاد شام کی فتوحات کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ چنانچہ جب معرکہ یرموک اختتام کو پہنچا اور رومی فوجیوں کی ہزیمت ہوئی تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے بشیر بن کعب حمیری رضی اللہ عنہ کو یرموک میں اپنا قائم مقام چھوڑا اور یہ خبر ملنے کے بعد کہ یرموک کی شکست خوردہ رومی فوج ’’فحل‘‘ میں جنگ کے لیے اکٹھا ہو رہی ہے اور اہل دمشق کو حمص سے مدد ملنے والی ہے، تو آپ تردد میں پڑ گئے کہ دمشق سے اپنی فوجی کارروائی کا آغاز کریں یا اردن کے شہر ’’فحل‘‘ سے۔ آپ نے امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ سے اس سلسلہ میں رہنمائی طلب کی، عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں یہ خط بھیجا: ’’پہلے دمشق پر حملہ کر کے اسے فتح کرو کہ وہ شام کا قلعہ اور اس کا صدر مقام ہے۔ ساتھ ہی فحل میں بھی سوار دستے بھیج دو، جو انہیں تمہاری طرف نہ بڑھنے دیں، اسی طرح فلسطین وحمص پر بھی نگاہ رکھو اگر دمشق سے پہلے فحل فتح ہو جائے تو بہتر ہے ورنہ دمشق فتح کر لینے کے بعد تھوڑی سی فوج وہاں چھوڑ دینا اور تمام امرائے لشکر کو اپنے ساتھ لے کر فحل روانہ ہو جانا اور اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں فحل فتح کرا دے تو خالد اور تم حمص چلے جانا۔ ہر علاقہ کا سالار فوج (وہاں سے گزرنے والی) دوسری فوج کا سالار اعلیٰ مانا جائے گا۔ جب تک کہ وہ اس کا علاقہ خالی نہ کر دیں۔‘‘[2]