کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 713
وَلَكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ لَمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ (101) وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ (102)(ہود: ۱۰۰۔۱۰۲) ’’یہ ان بستیوں کی چند خبریں ہیں جو ہم تجھے بیان کرتے ہیں، ان میں سے کچھ کھڑی ہیں اور کچھ کٹ چکی ہیں۔اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا اور لیکن انھوں نے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا، پھر ان کے وہ معبود ان کے کچھ کام نہ آئے جنھیں وہ اللہ کے سوا پکارتے تھے، جب تیرے رب کا حکم آگیا اور انھوں نے ہلاک کرنے کے سوا انھیں کچھ زیادہ نہ دیا۔اور تیرے رب کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے، جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے، اس حال میں کہ وہ ظلم کرنے والی ہوتی ہیں، بے شک اس کی پکڑ بڑی دردناک، بہت سخت ہے۔‘‘ ظالم اقوام کو تباہ و برباد کرنے کا نظام الٰہی ہمیشہ سے جاری ہے، فارسی بادشاہت نے اپنی رعایا پر ظلم کی تمام تدبیروں کو آزمایا تھا، اللہ کے بتائے ہوئے قانون اور نظام زندگی کو چیلنج کیا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر سنت الٰہی نافذ ہوئی، اس نے فارسیوں پر مسلمانوں کو مسلط کر دیا اور مسلمانوں نے انہیں اس صفحہ ہستی سے نابود کر دیا۔[1] ۵: خوشحالوں اور عیش پرستوں کے بارے میں قانون الٰہی: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا (16)(الاسراء: ۱۶) ’’اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اس میں حکم نہیں مانتے تو اس پر بات ثابت ہوجاتی ہے، پھر ہم اسے برباد کر دیتے ہیں، بری طرح برباد کرنا۔‘‘ اس آیت کریمہ کی تفسیر یہ ہے کہ جب کسی بستی کی ہلاکت کا وقت قریب آجاتا ہے تو اس کے خوشحال لوگوں یعنی عیش پرستوں، سرداروں اور حکام کو اپنی اطاعت کا حکم دیتے ہیں، لیکن وہ اپنی بد اعمالیوں پر اڑے ہوتے ہیں، پھر ہم ان پر اپنا فیصلہ نافذ کر کے ان کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ اس آیت میں باوجودیہ کہ سارے انسانوں کو اطاعت الٰہی کا حکم دیا گیا ہے، لیکن خوشحال لوگوں کا ذکر خاص طور سے اس لیے ہوا ہے کہ وہی فسق وفجور اور بدکاریوں کے ٹھیکیدار اور گمراہیوں کے سردار ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے عوام جو کچھ کرتی ہے وہ دیکھا دیکھی کرتی ہے، لہٰذا ان کو تاکیدی طور پر اطاعت کا حکم دیا گیا۔[2] یہ حقیقت فارس کے سرداروں اور بادشاہوں میں دیکھی جا سکتی ہے جو اپنی انہی بد اعمالیوں کی وجہ سے قانون الٰہی کی گرفت میں آئے۔
[1] لقاء المومنین، عدنان النحوی: ۲/ ۱۱۷۔ [2] التمکین للأمۃ الإسلامیۃ فی ضوء القرآن، ص: ۲۳۷۔ [3] تبصیر المومنین بفقہ النصر والتمکین، الصلابی، ص:۴۵۶۔